Baseerat-e-Quran - Al-An'aam : 123
وَ كَذٰلِكَ جَعَلْنَا فِیْ كُلِّ قَرْیَةٍ اَكٰبِرَ مُجْرِمِیْهَا لِیَمْكُرُوْا فِیْهَا١ؕ وَ مَا یَمْكُرُوْنَ اِلَّا بِاَنْفُسِهِمْ وَ مَا یَشْعُرُوْنَ
وَكَذٰلِكَ : اور اسی طرح جَعَلْنَا : ہم نے بنائے فِيْ : میں كُلِّ : ہر قَرْيَةٍ : بستی اَكٰبِرَ : بڑے مُجْرِمِيْهَا : اس کے مجرم لِيَمْكُرُوْا : تاکہ وہ حیلے کریں فِيْهَا : اس میں وَمَا : اور نہیں يَمْكُرُوْنَ : وہ حیلے کرتے اِلَّا : مگر بِاَنْفُسِهِمْ : اپنی جانوں پر وَمَا : اور نہیں يَشْعُرُوْنَ : وہ شعور رکھتے
اور اسی طرح ہم نے ہر بستی میں مجرموں کے کرتا دھرتا بنادیئے ہیں کہ وہاں مکرو فریب کا جال پھیلاتے رہیں۔ وہ اپنے مکرو فریب کے جال میں خود ہی پھنس رہے ہیں مگر ان کو ذرا خبر نہیں۔
لغات القرآن : آیت نمبر 123 : قریۃ ( بستی۔ شہر) اکبر ( بڑے) مجرمی (مجرمین) ۔ جرم کرنیوالے) مایمکرون (وہ شرارت نہیں کرتے) ۔ تشریح : آیت نمبر 123 : یہ آیت ایک بہت بڑی حقیقت پیش کررہی ہے۔ ہر فرد جماعت اور تنظیم کا محتاج ہے اسی طرح ہر جماعت ایک رہنما کی محتاج ہے۔ عوام تو خواص کے پیچھے چلتے ہیں ہر بھیڑ بکر یا سی راستہ پر چلتی ہے جو اس کی قطار کی سب سے آگے والے نے مقرر کردی ہے۔ معاملہ خواہ نیکی پھیلانے کا ہو یا بدی پھیلانے کا ‘ اصول یہی ہے۔ اکیلا چنا بھاڑ نہیں پھوڑ سکتا۔ باطل منظم ہے۔ وہ اس گر کو پہچان گیا ہے۔ اب اگر حق منظم نہ ہو تو باطل کو شکست نہیں دے سکتا۔ اس نکتے کو اسلام کے وہ علم بردار خوب سمجھ لیں جو صرف انفرادی پہچان گیا ہے۔ اب اگر حق منظم نہ ہوت و باطل کو شکست نہیں دے سکتا۔ اس نکتے کو اسلام کے وہ علم بردار خوب سمجھ لیں جو صرف انفرادی نجی عبادتوں میں غرق ہیں لیکن اجتماعی عوامی عبادتوں ‘ تبلیغ حق ‘ تنظیم اور جہاد سے دور بھاگتے ہیں۔ جنت اللہ کے داموں نہیں ‘ اپنے داموں خرید نا چاہتے ہیں۔ یہ آیت کہہ رہی ہے کہ کفر ہر قریہ میں نہ صرف ایک تنظیم بلکہ ایک تحریک کی صورت اختیار کرچکی ہے ” اکبر مجرمیھا “ کے الفاظ تنظیم کی طرف اور ” لیمکروا فیھا “ کے الفاظ تحریک کی طرف روشن ترین اشارہ کررہے ہیں۔ رسول مقبول ﷺ نے کافروں کی تنظیم کا علاج مومنوں کی تنظیم سے اور کافروں کی تحریک کا علاج مومنوں کی تحریک سے کیا ہے۔ ہجرت نہیں ہوسکتی تھی۔ جنگ بدر اور احد نہیں ہوسکتی تھی۔ اگرچہ آپ اللہ کا پیغام پہنچانے میں صحابہ کرام ؓ یا کسی کے محتاج نہ تھے لیکن بظاہر یہ حقیقت سمجھ میں آتی ہے کہ مدینہ کی سلطنت نہیں چل سکتی تھی اگر آپ ﷺ کے پیچھے تنظیم و تحریک نہ ہوتی ‘ اگر ایک حکم دینے والا اور بقیہ حکم لینے والے نہ ہوتے۔ اور یہ سب نبی کریم ﷺ کے فیض صحبت کا نتیجہ تھا۔ ہر نبی کی مخالفت میں افراد نہیں اٹھے ہیں بلکہ جماعتیں اٹھی ہیں جو اپنے اپنے سرغنوں کے ماتحت کام کررہی تھیں۔ حضور ﷺ کے ساتھ بھی یہی ہوا۔ اور ہر اس شخص کے ساتھ ہوگا جو اسلام کا کام کرنے کے لئے میدان عمل میں آئے گا۔
Top