Baseerat-e-Quran - Al-An'aam : 33
قَدْ نَعْلَمُ اِنَّهٗ لَیَحْزُنُكَ الَّذِیْ یَقُوْلُوْنَ فَاِنَّهُمْ لَا یُكَذِّبُوْنَكَ وَ لٰكِنَّ الظّٰلِمِیْنَ بِاٰیٰتِ اللّٰهِ یَجْحَدُوْنَ
قَدْ نَعْلَمُ : بیشک ہم جانتے ہیں اِنَّهٗ : کہ وہ لَيَحْزُنُكَ : آپ کو ضرور رنجیدہ کرتی ہے الَّذِيْ : وہ جو يَقُوْلُوْنَ : وہ کہتے ہیں فَاِنَّهُمْ : سو وہ یقینا لَا يُكَذِّبُوْنَكَ : نہیں جھٹلاتے آپ کو وَلٰكِنَّ : اور لیکن (بلکہ) الظّٰلِمِيْنَ : ظالم لوگ بِاٰيٰتِ : آیتوں کو اللّٰهِ : اللہ يَجْحَدُوْنَ : انکار کرتے ہیں
(اے نبی ﷺ ہم جانتے ہیں کہ : وہ باتیں جو یہ لوگ کرتے ہیں آپ کو رنج پہنچاتی ہیں مگر یہ لوگ آپ کو نہیں جھٹلاتے۔ بلکہ یہ ظالم خود اللہ کی آیات کا انکار کررہے ہیں۔
لغات القرآن : آیت نمبر 33 تا 36 : لیحزنک (البتہ وہ تجھے رنجیدہ کرتے ہیں) ‘ یجحدون ( وہ انکار کرتے ہیں) ‘ کذبت (جھٹلائی گئی۔ (جھٹلائے گئے) اوذوا ( تکلیف دیئے گئے) لامبدل (بدلنے والا نہیں ہے) ‘ کلمت اللہ ( اللہ کی باتیں) ‘ کبر (ناگوار گزرنا) ۔ بڑا ہے) ‘ استطعت (تیری طاقت ہے) ‘ تبتغی (تو تلاش کرتا ہے) ‘ نفق (کوئی سرنگ) ‘ سلم (سیڑھی) یستجیب ( وہ جواب دیتا ہے۔ قبول کرتا ہے) یسمعون ( وہ سنتے ہیں) الموتی (مردے) یبعث (وہ اٹھاتا ہے) ‘۔ تشریح : آیت نمبر 33 تا 36 : یہ آیات وہ تصویر پیش کررہی ہیں جو اہل کفر کی ہٹ دھرمی اور کج بحثی سے خود رسول اللہ کے دل پر گزر رہی تھی۔ یہ بھی پیش کررہی ہیں کہ آپ کیا چاہتے تھے۔ مگر اللہ کی تکوینی اسکیم کیا تھی۔ اور وہ کس طرح اپنی مصلحت سمجھا رہا تھا۔ آپ تو یہ چاہتے تھے کہ ہر کافر ایمان لے آئے اور اللہ کے عذاب سے بچ جائے۔ آپ اس کے فائدے کے متلاشی تھے مگر وہ بد بخت آپ کو اور قرآن کو جھٹلاتے تھے اور طرح طرح کی کٹھ حجتی کرتے تھے۔ یہ دیکھ کر آپ کی تمام کوششوں کے باوجود وہ جہنم جانے پر تلے ہوئے تھے۔ آپ کے قلب مبارک کو سخت اذیت اور تکلیف پہنچ رہی تھی۔ اللہ کا ارشاد ہے کہ یہ ظالم نادان آپ کو نہیں جھٹلا رہے ہیں۔ یہ تو اللہ کو جھٹلا رہے ہیں۔ ابو جہل نے میدان بدر میں اخنس بن شریق سے کہا تھا کہ محمد ﷺ کو نہیں جھٹلاتا وہ تو سچے آدمی ہیں۔ آج تک ایک جھوٹ نہیں بولا۔ میں تو قرآن کو اس لئے نہیں مانتا کہ سارے عہدے بنی قصی میں جمع ہوگئے ہیں۔ سقایہ بھی بیت اللہ کی حفاظت بھی اور اب نبوت بھی اسی خاندان کے حصے میں آگئی ہے۔ ایک روایت ناجیہ ابن کعب سے منقول ہے کہ ابو جہل نے خود ایک مرتبہ حضور ﷺ سے کہا تھا کہ ہمیں آپ پر جھوٹ کا کوئی گمان نہیں اور ہ ہم آپ کی تکذیب کرتے ہیں۔ ہاں ہم اس دین کو جھٹلاتے ہیں جسے آپ لے کر آئے ہیں۔ کفار اسی منطقی تضاد کا شکار تھے۔ اگر رسول اللہ سچے تھے تو جو کچھ آپ پیش فرما رہے تھے اسے بھی سچ ہونا چاہیے تھا۔ اگر سب کچھ جو آپ پیش فرما رہے تھے وہ غلط تھا تو پھر آپ سچے نہ تھے۔ (نعوذ باللہ) ۔ ان آیات میں اللہ تعالیٰ نے اپنے پیغمبر کو دو نصیحتیں کی ہیں۔ اول یہ کہ کفار کی حرکتوں پر صبر کیجئے جس طرح آپ سے پہلے پیغمبروں نے صبر کیا جن کے کچھ حالات سے آپ وحی کے ذریعہ واقف ہوچکے ہیں۔ وہ ہلا ہلا مارے گئے۔ وہ چیخ اٹھے کہ اللہ کی نصرت کب آئے گی ؟ ۔ وہ آکر رہی کیونکہ یہ اللہ کا وعدہ تھا جو سچ ہو کررہا۔ دوسری نصیحت جو فرمائی ہے وہ یہ کہ مشرکین اور کفار آپ سے نئے نئے معجزات طلب کررہے ہیں۔ اور آپ کی دلی خواہش ہے کہ کاش یہ معجزات آجائیں تاکہ وہ دین کی سچائیوں کو مان لیں۔ اللہ تعالیٰ نے فرمایا کہ اے نبی ﷺ ! اگر آپ پر ان کفار کی بےرخی ایسی ہی ناگوار گذررہی ہے تو جائیے زمین میں سرنگ کھود کر یا آسمان میں سیڑھی لگا کر ان کے لئے کوئی معجزہ لے آیئے۔ جو ناممکن ہے۔ اللہ تعالیٰ نے فرمایا ہماری مصلحت کیا ہے ؟ جو نہیں مانتا نہ مانے۔ وہ قیامت کے دن اپنا حشر دیکھ لے گا۔ اگر ہم چاہتے تو نبی اور کتاب کے بغیر ہی سب کو راہ ہدایت پر لے آتے۔ مگر ہم نے جو اتنے پیغمبر بھیجے اور اتنی کتابیں نازل کیں کس لئے ؟ کفار کے مقابلے میں مومنوں کی ایک تحریک برباد کرنے کے لئے ؟ مومنوں کو آزمائش میں ڈالنے کے لئے ؟ ان کی ہمتوں ‘ صلاحیتوں اور سیرتوں کو مانجھنے کے لئے۔ نہیں ہرگز نہیں۔ ہم نے جو آزادی فکر اور آزادی عقیدہ و عمل عطا کیا ہے تو اسی لئے کہ دیکھیں کون ادھر آتا ہے اور کو ن ادھر جاتا ہے۔ اللہ کی مدد یوں نہیں آجاتی اس کی چند شرطیں ہیں یعنی جب (1) تبلیغ کا پورا حق ادا ہوجائے ۔ (2 ض نیک اور صالح طبعتیں کھنچ کر ادھر آجائیں اور ان کی تنظیم بن جائے۔ (3) تحریک کے ذریعہ مومنین صالحین کی کڑی آزمائش کی جائے۔ چنانچہ اے نبی ﷺ ! ہمار مدد بھی اپنے وقت پر آئے گی۔ حیرت میں ڈال دینے والے معجزات دکھا کر کچی اور پھیلنے والی طبیعتوں کو ذرا اوپر کے لئے مائل کرلینا آسان ہے لیکن یہ ہماری مصلحت اور منشا نہیں ہے۔ ہم تو یہ چاہتے ہیں کہ لوگ اللہ کے نبی کی سیرت اور زندگی دیکھ کر غیب پر ایمان لائیں۔ ان ہی لوگوں کے لئے آخرت کی نجات ہے۔
Top