Baseerat-e-Quran - Al-A'raaf : 145
وَ كَتَبْنَا لَهٗ فِی الْاَلْوَاحِ مِنْ كُلِّ شَیْءٍ مَّوْعِظَةً وَّ تَفْصِیْلًا لِّكُلِّ شَیْءٍ١ۚ فَخُذْهَا بِقُوَّةٍ وَّ اْمُرْ قَوْمَكَ یَاْخُذُوْا بِاَحْسَنِهَا١ؕ سَاُورِیْكُمْ دَارَ الْفٰسِقِیْنَ
وَكَتَبْنَا : اور ہم نے لکھدی لَهٗ : اس کے لیے فِي : میں الْاَلْوَاحِ : تختیاں مِنْ : سے كُلِّ شَيْءٍ : ہر چیز مَّوْعِظَةً : نصیحت وَّتَفْصِيْلًا : اور تفصیل لِّكُلِّ شَيْءٍ : ہر چیز کی فَخُذْهَا : پس تو اسے پکڑ لے بِقُوَّةٍ : قوت سے وَّاْمُرْ : اور حکم دے قَوْمَكَ : اپنی قوم يَاْخُذُوْا : وہ پکڑیں (اختیار کریں) بِاَحْسَنِهَا : اس کی اچھی باتیں سَاُورِيْكُمْ : عنقریب میں تمہیں دکھاؤں گا دَارَ الْفٰسِقِيْنَ : نافرمانوں کا گھر
اور ہم نے اس کو تختیوں پر ہر چیز اور ہر نصیحت کو تفصیل کے ساتھ لکھ دے دیا تھا اور کہا تھا کہ ان (نصیحتوں اور ان احکامات ) مضبوطی سے تھام کر اپنی قوم کو سکھائو تاکہ وہ اس کو احسن طریقہ پر عمل کریں ۔ اور میں بہت جلد تمہیں نافرمانوں کے ٹھکانے دکھائوں گا۔
تشریح :ـآیات نمبر ا 45 تا 147 حضرت موسیٰ (علیہ السلام) نے مختلف موقعوں پر پس پردہ براہ راست اللہ تعالیٰ سے کلام کیا ہے اگر چہ وہ اللہ کا دیدار تو حاصل نہ کرسکے لیکن ان کو اللہ سے کلام کرنے کا شرف حاصل ہے اس لئے حضرت موسیٰ (علیہ السلام) کو کلیم اللہ کہا جاتا ہے۔ پہلی گفتگو تو وہ ہے جو سورة الاعراف کی آیت نبمر 143 سے ظاہر ہے ۔ اللہ سے کلام کا سلسلہ جاری رہا اور چالیس دن کے بعد اللہ تعالیٰ نے حضرت موسیٰ (علیہ السلام) کی پتھر کی سلوں پر لکھی ہوئی توریت عطا کی۔ اس میں جو ہدایات دی گئی تھیں ان کا خلاصہ یہ ہے۔ 1) حکم پر محض عمل کرنا کافی نہیں ہے اللہ کو جو چیز مطلوب ہے وہ ہے حسن عمل یعنی کسی کا حکم پر احسن طریقہ سے عمل کرنا جس میں علم ، عقل ، خلوص، محبت اور حسن و جمال جیسی خوبیاں بھی شامل ہوں۔ اللہ کو ہر عمل کی کثرت نہیں بلکہ عمل کی خوبی زیادہ پسند ہے۔ 2) عبرت اور ہر چیز کی تفصیل سے مراد وہ تاریخی کھنڈرات بھی ہیں جہاں سے بڑی بڑی طاقتیں اٹھیں لیکن کفر و شرک میں مبتلا وہنے کی وجہ سے عذاب الہٰی کی مستحق ہوگئیں۔ 3) تیسری بات یہ کہی گئی ہے کہ اللہ کی آیات روح تک اسی وقت پہنچ سکتی ہیں جب راہ میں تکبر اور غرور کی رکاوٹ نہ ہو ۔ جہاں ذہن میں یہ بات آئی کہ میں قوت واقتدار والا ہوں میں دولت والا ہوں ، میں علم و عقل والا ہوں، میں باقاعدہ قرآن و حدیث پڑھے بغیر چند باتیں سیکھ کر دین کی ہر بات کو خود سمجھ لیتا ہوں (جیسا کہ آج کل کچھ جدید تعلیم یافتہ طبقہ سوچتا ہے ) تو اللہ تعالیٰ کا نظام ہے کہ وہ دل و دماغ کو پھیر دیتا ہے اور وہ کہج فہم لوگ دوذخ کے راستے پر نکل پڑتے ہیں اور وہ لوگوں کو گمراہ کرتے ہیں ۔ تکبر کے ساتھ ” بغیر حق “ کی شرط لگی ہے اس کے واضح معنی یہ ہیں کہ تکبر اور بڑائی کا حق صرف اللہ کو حاصل ہے کبریائی کی شان اسی کے پاس ہے اللہ ہی ” اکبر “ ہے بقیہ سب اصغر (بہت ہی چھوٹے) ہیں انسان خواہ مخواہ اپنے آپ کو برا سمجھتا اور غرور کرتا ہے یہ ابلیس کی نشانی ہے ۔ ہا تحدیث نعمت کے طور پر یا شکر گزاری کے طو پر یہ کہا جاسکتا ہے کہ مجھے اللہ نے فلاں فلاں نعمتیں عطا فرامائی ہیں ۔ تقابلی موازنہ کی بھی کنجائش ہے ۔ مگر فخر و غرور کی کوئی گنجائش نہیں ہے۔ حق کے معنی سچائی کے بھی ہیں ۔ حقوق اور انصاف کے بھی ۔ اگر بشرط ضرورت تقابلی موازنہ کیا جائے تو جو کچھ کہا جائے وہ بالکل سچ ہو۔ اس میں مبالغہ خود آرائی گھٹائو بڑھائو نہ ہو۔ نہ کسی کا حق مارا جائے یعنی اگر کسی شخص میں کوئی خوبی ہے تو اس کے بےلاگ طریقہ پر تسلیم کیا جائے۔ لیکن اس کی اجازت نہیں ہے کہ جذبات میں بہہ کر انصاف کا دامن ہا تھ سے چھوڑا دیا جائے۔ حضرت موسیٰ (علیہ السلام) کو بیایا جارہا ہے کہ ان کو قوم میں تکبر اور برائی کرنے والوں کی کثرت ہے ۔ ایسے لوگوں کی پہچان یہ ہے کہ وہ ساری نشانیاں اور معجزات دیکھنے کے باوجود ایمان نہیں لاتے۔ وہ اللہ کی آیات کو جھٹلاتے ہیں کبھی ان کی طرف توجہ نہیں کرتے۔ لہو و لعب ان کی زندگی بن کر رہ گیا ہے۔ وہ اس طرف ذرا بھی توجہ نہیں کرتے کہ ایک دین انہیں اللہ کے سامنے حاضر ہو کر اپنے کئے کا پورا پورا حساب دینا ہے۔ ان آیات میں اللہ تعالیٰ نے ارشاد فرمادیا ہے کہ کافروں میں جہاں برے لوگ ہیں وہیں کچھ اچھے لوگ بھی ہیں جو لوگوں کی بھلائی اور خیبر خواہی کے کام کرتے ہیں ۔ مگر قرآن کریم نے ہمارے سامنے اس اصول کو بھی واضح طریقہ پر رکھ دیا ہے کہ جو شخص کوئی بھی نیک کام کرے گا خواہ وہ اللہ کا دوست ہو یا دشمن اس کے نیک کاموں کا اس کو اجر دیا جائے گا۔ فرق صرف اتنا ہے کہ وہ نیک کام جو کوئی انسان ایمان کے بغیر کرتا ہے تو اس کی محنت کا صلہ اس کو اسی دنیا میں مل جاتا ہے لیکن وہی نیک کام اگر ایمان کے ساتھ کیا جائے گا تو اس کا اجر اور صلہ اس دنیا میں بھی ملے گا اور آخرت میں بھی۔ اس کا مطلب یہ ہے کہ دنیا و آخرت میں اجر وثواب کا دارومدار ایمان پر ہے اور ایمان ہی اس عمل ع کے اجر میں وزن پیدا کرتا ہے۔ ایمان کے بغیر جو بھی عمل کیا جائے گا وہ بھاری نہیں ہلکا ہوگا اتنا ہل کہ کہ وہ آسمانوں کی طرف بلند نہیں ہو سکتا۔
Top