Baseerat-e-Quran - Al-A'raaf : 154
وَ لَمَّا سَكَتَ عَنْ مُّوْسَى الْغَضَبُ اَخَذَ الْاَلْوَاحَ١ۖۚ وَ فِیْ نُسْخَتِهَا هُدًى وَّ رَحْمَةٌ لِّلَّذِیْنَ هُمْ لِرَبِّهِمْ یَرْهَبُوْنَ
وَ : اور لَمَّا : جب سَكَتَ : ٹھہرا (فرد ہوا) عَنْ : سے۔ کا مُّوْسَى : موسیٰ الْغَضَبُ : غصہ اَخَذَ : لیا۔ اٹھا لیا الْاَلْوَاحَ : تختیاں وَ : اور فِيْ نُسْخَتِهَا : ان کی تحریر میں هُدًى : ہدایت وَّرَحْمَةٌ : اور رحمت لِّلَّذِيْنَ : ان لوگوں کے لیے جو هُمْ : وہ لِرَبِّهِمْ : اپنے رب سے يَرْهَبُوْنَ : ڈرتے ہیں
جب موسیٰ (علیہ السلام) کا غصہ ٹھنڈا ہوا تو اس نے توریت کی تختیاں اٹھائیں جس میں ان لوگوں کے لئے ہدایت اور رحمت تھی جو اپنے پروردگار سے ڈرنے والے ہیں ۔
تشریح : آیت نمبر 154 تا 156 صدیوں کی غلامی اور فرعون کے ظلم و ستم سے نجات کے بعد اللہ نے بنی اسرائیل کو خلافت ارضٰ سپرد کی تھی۔ اس خلافت کو چلانے کے لئے جس آئین اور قوانین کی ضرورت تھی وہ اللہ نے توریت کی شکل میں بنی اسرائیل کو عطا کردئیے تھے۔ اس کے ساتھ ہی ایک امیر مملکت بھی جو ، آئین و قوانین کی تفصیلات سمجھنے کے لئے خصوصی علم و دانش رکھتا ہو اور جس کا مسلسل رابط اللہ تعالیٰ سے ہو چناچہ اس خلافت ارضی کیلئے حضرت موسیٰ (علیہ السلام) کو کوہ طور پر بلایا گیا جہاں چالیس دن رات ان کی تعلیم و تربیت فرمائی گئی اس تعلیم و تربتی کے بعد توریت کی تختیاں سپرد ہوئیں جن پر دنیا وآخرت کی فلاح بہبود کے اصول لکھے ہوئے تھے۔ جب حضرت ہارون (علیہ السلام) کی معذرت پر حضرت موسیٰ (علیہ السلام) کا غم دور ہوا تو وہ اپنی نبوت کے کام میں لگ گئے۔ انہوں نے توریت کی تختیاں اٹھالیں اور ان کی تبلیغ شروع کردی ظاہر ہے کہ تبلیغ دین میں کوئی زبردستی تو ہوتی نہیں ۔ اللہ تعالیٰ کی ہدایت وہی مانیں گے اور اس کے رحمت کے مستحق وہی لوگ ہوں گے جو اللہ کا خوف رکھتے ہیں۔ اللہ کا خوف عام خوف سے مختلف ہے یہ صرف خوف ہی خوف نہیں رحمت و شفقت کی امیدیں بھی ساتھ ساتھ لگی ہوئی ہیں۔ ایک طرف دوزخ کا خوف ضرور ہے تاکہ انسان گناہ سے رک جائے لیکن دوسری طرف گناہ گار کے ہاتھ میں توبہ کا ہتھیار بھی دے دیا گیا تاکہ وہ جنت سے مایوس نہہو۔ کیونکہ مایوسی گناہ ہے دنیا میں باپ کا خوف اللہ کا خوف کا ایک ادنیٰ سا نمونہ اور مثال ہے اس میں باپ سے ایک ڈر بھی ہے کہ ڈر کے بغیر گھر کا انتظام چل نہیں سکتا مگر بچہ کو پوری امید بھی ہے کہ اگر وہ نیک راہوں پر چلے گا اور کسی خطا پر شرمندہ ہوگا تو باپ کی محبت غالب آجائے گی تقویٰ کا لفظ اسی ملی جلی کیفیت کا نام ہے۔ اللہ تعالیٰ کے مقرر کئے ہوئے وقت اور مقام پر پہنچنے کے لئے بنی اسرائیل کے سترہ افراد کا انتخاب کیا گیا۔ بعض مفسرینکا خیال ہے کہ یہ ان لوگوں میں سے تھے جو حضرت موسیٰ (علیہ السلام) پر ایمان لائے تھے انہیں کوہ طور پر لیجانے کا مقصد یہ تھا کہ وہ قوم کی طرف سے اللہ کی بارگاہ میں اس قصور کی معافی مانگیں گے جو بچھڑے کی پرستش کی صورت میں سر زد ہوا ہے۔ بیض مفسرین کا خیال ہے کہ وہ اللہ کے منکرین میں سے تھے۔ وہ کہتے تھے کہ ہم مان لیں گے کہ یہ توریت کی تختیاں اللہ کی طرف سے ہیں ۔ حضرت موسیٰ (علیہ السلام) نے اللہ کی اجازت سے یہ کہا گیا کہ اس میں جس کو شک ہو وہ کوہ طور پر میرے ساتھ چلے اللہ مجھ سے ہمکلام ہوگا تم بھی سن لینا ان کو چلتے چلتے ایک شرارت سوجھی کہ ہم یہ کیسے مان لیں گے کہ یہ آواز جو تم سنتے ہو اللہ ہی کی آواز ہے ہاں اللہ خود ہمارے سامنے آکر بات کرے تو ہم یقین کرلیں گے۔ اس گستاخی پر اللہ کا قہر نازل ہوا اور شدید زلزلہ سا آگیا یا سورة بقرہ کے الفاظ میں صاعقہ یعنی بجلی کی ایک تیز کڑک تھی جس کو سن کر ستر کے ستر لوگ مرگئے ۔ حضرت موسیٰ (علیہ السلام) نے عرض کیا۔ الہٰی اگر آپ چاہتے تو ان کو اس سے پہلے بھی ہلاک کرسکتے تھے۔ ان کو زندگی دیدیجئے۔ شاید حضرت موسیٰ (علیہ السلام) کے ذہن میں خیال ابھرا ہو کہ کہیں بنی اسرائیل ان پر یہ الزام نہ لگادیں کہ دھوکے سے بنی اسرائیل کے ستر سر داروں کو مرادیا۔ اللہ تعالیٰ نے حضرت موسیٰ (علیہ السلام) کی دعا سے ان سب کو زندہ کردیا۔ حضرت موسیٰ (علیہ السلام) نے اس موقع پر جو دعا کی اس کے دو جزو ہیں 1) اے اللہ ہمارے قصور معاف فرما دے اور ہم پر رحم و کرم فرما۔ 2) ہمیں اس دنیا میں اور آخرت میں اپنی نعمتوں کے لئے چن لے۔ پہلے حصے کا مطلب یہ ہے کہ جن لوگوں پر عتاب و عذاب ہوا ہے ان کو معافی دیدی جائے۔ فرمایا کہ رہم ان کو زندہ تو کردیتے ہیں لیکن ان قصوروں کی معافی کیلئے تین شرطیں ہیں (1) تقویٰ یعنی خوف الہٰی (2) زکوٰۃ کی ادائیگی (3) آیات الہٰی پر ایمان دوسرے حصے کا مطلب یہ ہے کہ ہمیں اس دنیا اور آخرت میں ہر طرح کی کامیابیاں عطا فرما دیجئے اور اپنی تمام نعمتوں کے لئے ہمارا انتخاب کرلیجئے۔ اللہ نے فرمایا کہ میری رحمت ہر چیز پر چھائی ہوئی ہے اس کا مطلب یہ ہے کہ بندوں سے اللہ کا سلوک سرا سر رحم و کرم اور شفقت و محبت کی بنیاد پر قائم ہے سزا ان کو دی جاتی ہے جو گناہوں پر گناہ کرتے چلے جاتے ہیں اور اللہ کی طرف نہیں پلٹتے یعنی توبہ نہیں کرتے۔
Top