Baseerat-e-Quran - Al-A'raaf : 172
وَ اِذْ اَخَذَ رَبُّكَ مِنْۢ بَنِیْۤ اٰدَمَ مِنْ ظُهُوْرِهِمْ ذُرِّیَّتَهُمْ وَ اَشْهَدَهُمْ عَلٰۤى اَنْفُسِهِمْ اَلَسْتُ بِرَبِّكُمْ١ؕ قَالُوْا بَلٰى١ۛۚ شَهِدْنَا١ۛۚ اَنْ تَقُوْلُوْا یَوْمَ الْقِیٰمَةِ اِنَّا كُنَّا عَنْ هٰذَا غٰفِلِیْنَۙ
وَاِذْ : اور جب اَخَذَ : لیا (نکالی) رَبُّكَ : تمہارا رب مِنْ : سے (کی) بَنِيْٓ اٰدَمَ : بنی آدم مِنْ : سے ظُهُوْرِهِمْ : ان کی پشت ذُرِّيَّتَهُمْ : ان کی اولاد وَاَشْهَدَهُمْ : اور گواہ بنایا ان کو عَلٰٓي : پر اَنْفُسِهِمْ : ان کی جانیں اَلَسْتُ : کیا نہیں ہوں میں بِرَبِّكُمْ : تمہارا رب قَالُوْا : وہ بولے بَلٰي : ہاں، کیوں نہیں شَهِدْنَا : ہم گواہ ہیں اَنْ : کہ (کبھی) تَقُوْلُوْا : تم کہو يَوْمَ الْقِيٰمَةِ : قیامت کے دن اِنَّا : بیشک ہم كُنَّا : تھے عَنْ : سے هٰذَا : اس غٰفِلِيْنَ : غافل (جمع)
اور یاد کرو جب آپ ﷺ کے رب نے بنی آدم کی پشت سے ان نسلوں کو نکال کر ان کو ان کی اپنی جانوں پر گواہ بنا کر پوچھا کہ کیا میں تمہارا رب نہیں ہوں ؟ ۔ سب نے کہا ” جی ہاں کیوں نہیں “ ہم نے اقرار لیا تاکہ کبھی تم قیامت میں یہ نہ کہنے لگو کہ ہم تو اس سے بیخبر تھے۔
تشریح آیت نمبر 172 تا 174 پچھلی آیات میں دو وعدوں کا ذکر ہے جو اللہ تعالیٰ نے بنی اسرائیل سے لئے ہیں۔ (ا) ایک کوہ طور کو اٹھا کر ان کے سروں پر معلق کرنے سے پہلے اور دوسرا معلق کرنے کے بعد اسی طرح قرآن کریم میں بہت سے عہد، میثاق اور وعدوں کا ذکر ہے جو مختلف جماعتوں سے لئے گئے ہیں ان آیات میں ایک مقدس ترین عہد کا ذکر فرمایا گیا ہے جسے خود حق تعالیٰ شانہ نے براہ راست اپنے تمام بندوں سے لیا ہے اس عہد کا نام عہد الست ہے۔ اس عہد الست کے لئے بہت سی روایات موجود ہیں جن میں اس عہد کی وضاحت فرمائی گئی ہے کچھ حضرات نے حضرت عمر فاروق ؓ سے اس میثاق اور اور عہد کے متعلق پوچھا تو آپ نے فرمایا کہ جب یہ آیت نازل ہوئی کچھ صحابہ کرام ؓ نے یہ سوال رسول اللہ ﷺ سے کیا تو جواب آپ نے ارشاد فرمایا میں نے ستا وہ یہ تھا کہ : اللہ تعالیٰ نے سب سے پہلے حضرت آدم (علیہ السلام) کو پیدا کیا، پھر اپنا دست قد رت ان کی پشت پر پھیرا تو ان کی پشت سے جو نیک انسان پیدا ہونے والے تھے وہ نکل آئے اللہ تعالیٰ نے فرمایا کہ میں نے ان کو جنت کے لئے پیدا کیا ہے اور یہ جنت ہی کے کام کریں گے پھر دوسری دفعہ ان کی پشت پر دست قدرت پھیرا تو جتنے گناہ گار بد کار انسان تھے ان کو نکال کر کھڑا کیا اور فرمیا کہ میں نے ان کو دوزخ کے لئے پیدا کیا ہے اور یہ دوزخیوں والے ہی کام کریں گے۔ حضرت فاروق اعظم ؓ فرماتے ہیں کہ یہ سن کر صحابہ کرام ؓ میں سے کسی نے پوچھا کہ یا رسول اللہ ﷺ جب پہلے ہی جنتی اور جہنمی متعین کردیئے گئے تھے تو پھر عمل کس مقصد کے لئے کرایا جاتا ہے ؟ حضور اکرم ﷺ نے اسکے جواب میں ارشاد فرمایا کہ جب اللہ تعالیٰ کسی کو جنت کے لئے پیدا کرتا ہے تو وہ اہل جنت ہی کے کام کرنے لگتا ہے اور جب اللہ تعالیٰ کسی کو جہنم کے لئے پیدا فرماتے ہیں تو وہ دوزخ ہی کے کام میں لگ جاتا ہے یہاں تک کہ اس کا خاتمہ کیس ایسے کا پر ہوتا ہے جو اہل جہنم کا کام ہے مطلب یہ ہے کہ جب انسان کو معلوم نہیں ہے کہ وہ کس طبقہ میں داخل ہے تو اس کو قوت اختیار ایسے کاموں میں خرچ کرنا چاہیے جو ہل جنت کے ہیں اور یہی امید رکھنا چاہئے کہ وہ ان ہی میں سے ہوگا اس حدیث کی وضاحت سے یہ بات سمجھ میں آتی ہے کہ اللہ تعالیٰ نے اس عہد کو انسان کی فطرت میں رکھدیا ہے۔ ۔۔ ۔ نبی کریم ﷺ نے اس بات کو اس حدیث میں واضح فرمایا کہ : کل مو لود یمجسا نہ (بخاری و مسلم) ہر بچہ جو پیدا ہوتا ہے وہ فطرت یعنی اسلام پر پیدا ہوتا ہے پھر اس کے ماں باپ اس کو (اپنے رنگ میں ڈھال کر ) یہودی ، عیسائی یا ستارہ پرست مشرک بنا لیتے ہیں ۔ اس حدیث کا مطلب یہ ہے کہ کوئی انسان بچہ جو اس دنیا میں قدم رکھتا ہے وہ پیدائشی گناہگار یا کافر نہیں ہوتا بلکہ اس کے اردگرد کا ماحول جو اسکے والدین بنالیتے ہیں اس بچے کو وہ اس رنگ میں ڈھا ل لیتے ہیں کسی کو یہودی کسی کو عیسائی اور کسی کو مشرک بنال یتے ہیں اس حدیث کا دوسرا مفہوم یہ بھی ہے کہ ایک انسانی بچہ اگر کسی مشرک کافر اور بت پرست کے گھر میں پیدا ہوتا ہے تو وہ مشرک ، کافر اور بت پرست نہیں ہوتا بلکہ وہ فطرت اسلام لے کر پیدا ہوتا ہے ۔ یہی وجہ ہے کہ اگر وہ بچہ بالغ ہونے سے پہلے مر جائے تو اللہ تعالیٰ اس کو اسی فطرت کی وجہ سے جہنم میں نہیں بھیجیں گے بلکہ اس کو اہل جنت کا خادم بنا دیں گے۔ جب کسی مسلمان گھرانے میں کوئی بچہ پیدا ہوتا ہے تو اس کے لئے سنت طریقہ یہ ہے کہ اس بچے کے داہنے کان میں اذان اور بائیں کان میں اقامت کہی جائے اگر غور کیا جائے تو ایک ایسا بچہ جس نے ابھی دنیا میں قدم رکھا ہے اس کے کان میں اذان اور اقامت کہی جارہی ہے۔ اقامت کے کیا معنی ہیں ؟ کیا وہ اس کو سمجھ رہا ہے ؟ لیکن پھر بھی حکم ہے کہ اس کے کان میں اللہ اور اس کے رسول کا نام ڈال دیا جائے تاکہ وہ عہد جو اس نے اپنے رب سے روز اول کیا تھا وہ یاد دلا دیا جائے۔ وہ بچہ جو چند گھنٹہ کا ہوتا ہے کیا وہ یہ بات کو سمجھتا ہے ؟ موجودہ تحقیق یہ ہے کہ جو کچھ اس کے کان کے راستے پہنچ رہی ہے وہ اس کو سمجھتا ہے لیکن وہ اس کا اظہار نہیں کرسکتا بچہ اس ٹیپ ریکارڈ کی طرح ہے جو ہر بات کو اپنے اندر جذب کرتا رہتا ہے ہم یہ سمجھتے ہیں ۔ یہ ایک مشین ہے جو غیر محسوس طریقے سے چل رہی ہے لیکن در حقیقت وہ ہر اس بات کو نوٹ کرتی جارہ ہے جو اس کے سامنے کی جاتی ہے۔ یہی حال اس چند گھنٹے کے بچے کا بھی ہے کہ اس کر فطرت میں جو عہد و میثاق ہے جب اللہ اور اس کے رسول کا نام لیا جاتا ہے تو وہ سمجھتا ہے لیکن وہ اس کا اظہار نہیں کرسکتا۔ پھر انبیاء کرام (علیہ السلام) تشریف لاتے ہیں اور وہ انسان کی فطرت کے اس عہد کی یاد دلاتے ہیں جو اس کی روح نے اپنے رب سے کیا تھا جو سعادت مند روحیں ہوتی ہیں وہ دین کی سچائیوں کو قبول کرتی ہیں اور بد بخت اور بد نصیب لوگ ہیں وہ ان سے روگردانی کرتی ہیں۔ انبیاء کرام (علیہ السلام) اسی عہد کو یاد کرانے تشریف لاتے رہے یہاں تک کہ سارے نبیوں کے بعد آخر میں خاتم الانبیاء حضت محمد مصطفیٰ ﷺ تشریف لائے جنہوں نے نہ صرف اسلام کی روشنی دلوں تک پہنچایا بلکہ آج ان کا ہر عمل اس طرح روشن وتا باں ہے کہ جو بھی عمل کرے گا اس کی فطرت اپنے پروردگار کے اس عہد کے لئے پکار اٹھے گی کہ اے میرے رب میں حاضر ہوں۔ ان تمام روشنیوں کی موجودگی میں اب انسان کے لئے یہ کہنے کی گنجائش نہیں ہے کہ اے میرے رب مجھے تو یہ معلوم ہی نہ تھا کہ میں نے آپ سے کیا اور کب عہد کیا تھا۔
Top