Baseerat-e-Quran - Al-A'raaf : 180
وَ لِلّٰهِ الْاَسْمَآءُ الْحُسْنٰى فَادْعُوْهُ بِهَا١۪ وَ ذَرُوا الَّذِیْنَ یُلْحِدُوْنَ فِیْۤ اَسْمَآئِهٖ١ؕ سَیُجْزَوْنَ مَا كَانُوْا یَعْمَلُوْنَ
وَلِلّٰهِ : اور اللہ کے لیے الْاَسْمَآءُ : نام (جمع) الْحُسْنٰى : اچھے فَادْعُوْهُ : پس اس کو پکارو بِهَا : ان سے وَذَرُوا : اور چھوڑ دو الَّذِيْنَ : وہ لوگ جو يُلْحِدُوْنَ : کج روی کرتے ہیں فِيْٓ اَسْمَآئِهٖ : اس کے نام سَيُجْزَوْنَ : عنقریب وہ بدلہ پائیں گے مَا : جو كَانُوْا يَعْمَلُوْنَ : وہ کرتے تھے
اور اللہ کے بہت اچھے اچھے نام ہیں اس کو ان ہی ناموں سے پکارو۔ ان لوگوں کو چھوڑو جو ان ناموں کے ساتھ بےدینی کرتے ہیں ۔ بہت جلد وہ اپنے کئے ہوئے کاموں کا بدلہ دیئے جائیں گے۔
تشریح ؛ آیت نمبر 180 تا 183 ان آیات سے یہ اشارہ ملتا ہے کہ اللہ تعالیٰ کے ننانوے نام ہیں ۔ یہ نام تقریباً قرآن کریم میں آتے ہیں۔ اللہ اس کا ذاتی نام ہے باقی تمام اسمائے صفات ہیں اللہ نے حکم دیا ہے کہ اللہ کو ہمیشہ اس کے اچھے ناموں سے پکارو۔ لوگوں نے جو اللہ کے مشرکانہ نام رکھے ہوئے ہیں ان کو چھوڑ دو کیونکہ وہ نام گندے اور برے نام ہیں۔ اگر کوئی برے گندے اور مشرکانہ ناموں سے اسکو پکارے گا تو اس کی اس کی سزادی جائیگی۔ حضرت ابوہریرہ ؓ سے روایت ہے کہ نبی کریم ﷺ نے ارشاد فرمایا کہ اللہ تعالیٰ کے 99 ہیں اس کو ان ہی ناموں سے یاد کرو۔ جو شخص ان ناموں کا ورد کرے گا وہ جنت میں داخل ہوگا اس حدیث سے دو باتیں معلوم ہوئیں۔ (1) کہ اللہ کے ننانوے نام ہیں اور (2) وہ بہت اچھے نام ہیں انسانوں کو بھو ل ہے کہ وہ اللہ کے ایسے بہترین نام چھوڑکر مشرکانہ نام رکھتے ہیں۔ جب نبی کریم ﷺ نے اعلان نبوت فرمایا اس وقت بت پرستوں نے اپنے بتوں کے متعدد نام رکھے ہوئے تھے اور وہ ان سے ہی اپنی مرادیں مانگتے تھے جیسے لات، منات ، عزی ھبل وغٰیرہ۔ انہوں نے ہر بت کے ذمے کچھ ڈیوٹیاں لگا رکھی تھیں کوئی بت بارش برساتا تھا کوئی اولاد دیتا تھا اور کسی کے ذمہ رزق دینا تھا۔ یہ ساری باتیں انہوں نے خود سے گھڑ رکھی تھیں اور کہتے تھے کہ یہ اللہ کے صفاتی نام ہیں اللہ تعالیٰ نے منع فرمایا کہ اللہ کی طرف ان ناموں کی نسبت بھی نہ کی جائے اس کے بہت بہترین نام ہیں ان کو ان ہی ناموں سے پکارا جائے۔ نہ اللہ کی ذات کو سمجھنے کے لئے اپنی طرف مثالیں گھڑی جائیں اور نہ اس کے طرح طرح کے نام رکھے جائیں ۔ احادیث سے معلوم ہوتا ہے کہ اللہ اور اس کے رسول کو وہ نام پسند ہیں جو اللہ کے ذاتی اور صفاتی نام ہیں۔ ہماری کوشش یہی ہونی چاہیے کہ اپنے بچوں کا نام اللہ کے ناموں سے منسوب کئے جائیں جیسے عبد اللہ ، عبدالرحمن وغیرہ مگر اس میں یہ احتیاط ملحوظ رکھنی چاہیئے کہ اگر کسی کا نام عبدالرحمن ہو تو اس کو عبدالرحمن نہ کہا جائے بلکہ عبدالرحمن کہا جائے۔ بد قسمتی سے جو لوگ عبدالرحمن ، عبد الرزاق نام رکھ لیتے ہیں وہ ان کو رحمن صاحب اور رزاق صاحب کہہ کر پکارتے ہیں یہ جائز نہیں ہے نام پورا لیاجائے۔ موجودہ دور میں بھی یہ فتنہ ایک نئی شکل کے ساتھ موجود ہے اور وہ یہ ہے کہ اول تو ہم اپنے بچوں کے اسلامی نام رکھنا ہی چھوڑ دیئے ہیں۔ حالانکہ نام کی سب سے بڑی اہمیت یہ ہے کہ وہ مسلم امت کی پہچان ہے۔ شکل صورت تو ہماری قوم نے ایسی بنالی ہے کہ مسلم اور غیر مسلم میں کوئی فرق ہی محسوس نہیں ہوتا۔ نامہی ایک پہچان کا ذریعہ تھا وہ پہچان بھی ختم کردی گئی۔ مغربی ملکوں میں تو سارے امتیازات ختم کرکے نئی نسل کی زبان کی پہچان بھی ختم کردی گئی اور ہمیں اس بات پر فخر ہوتا ہے کہ ہمارا بچہ ہماری زبان نہیں سمجھتا۔ حالانکہ یہ بات تو ڈوب مرنے کی ہے فخر کی بات نہیں ہے لیکن یہ بھی ایک فیشن بن گیا ہے جب دوسری قوموں کی شکل صورت بنالی گئی نام بھی مسلمان نہ رہا اور زبان بھی اپنی نہ رہی تو آنے والی نسلوں کا اللہ ہی مالک ہے۔ میں عرض کر رہا تھا کہ ناموں کے بارے میں ایک بےاعتدالی تو یہ ہے دوسری طرف وہ لوگ جو اللہ کی صفات کیساتھ نام رکھتے ہیں اس میں عبدیت کا لفظ ہی نکال دیا گیا ہے ۔ عبدالرحمن ، عبدالصمد، عبدالرزاق عبدالخالق کہنے کی بجائے رحمن صاحب ، صمد صاحب رزاق صاحب خالق صاحب نام کردیئے گئے ہیں۔ حالانکہ اس طرح ناموں کو لینا گناہ کبیرہ میں سے ہے لیکن ہم بڑی آسانی سے اس گناہ کبیرہ کو کرتے چلے جار ہے ہیں اور اس کا ذرا احساس نہیں کرتے کہ اس طرح کہنا کتنا بڑا گناہ ہے۔ نام رکھنا ایک فن ہے۔ سائنس کی جو ایجادات ہورہی ہیں یا نئے قوانین فطرت جو دریافت ہو رہے ہیں یا نئی تحقیقات اور معلومات حاصل ہو رہی ہیں ان کے نام رکھے جارہے ہیں ان ناموں کے پیچھے ایک سائنس ہے ایک فن ہے جس پر سب سے پہلے ارسطو نے بحث کی ہے اور اصول مقرر کئے ہیں ۔ ناموں سے چند چیزیں واضح ہوتی ہیں۔ نام کھنے والے کی عقل علم، نفرت، محبت یا عقیدت مسمی یعنی جس کا نام رکھا جائے اس کی تعریف خصوصیت ، خوبی ، خرابی عزت، ذلت وغیرہ کا اظہار ہوتا ہے۔ مثلا لفظ اسلام ہے اس لفظ سے دین اسلا م کی غرض و غائت ایک نگاہ میں معلوم ہوتی ہے یہ نام کسی شخص واحد کے نام پر نہیں بنا۔ مثلا یہودیت ، زرتشت، کنفیو شس بدھازم وغیرہ بےمعنی جغرافیائی لفظ ہیں مثلا ہندو ازم ٹائو ازم یا جین ازم وغیرہ اس کے بر خلاف دوسری طرف لفظ اللہ ہے یہ لفظ بھی خود اپنے اندر ایک بہت بڑی حقیقت لئے ہوئے ہیں۔ یہ لفظ صرف حق تعالیٰ شانہ کے لئے مخصوص ہے اس کا نہ مونث ہے نہ تثنیہ ہے نہ جمع ہے نہ سبب ہے نہ نتیجہ ہے ۔ یہ لفظ دین اسلام کی پہچان ہے۔ کوئی قوم اس کو استعمال نہیں کرتی دوسرے مذاہب نے جو اپنے دیوی دیوتا ، بتو اور معبودوں کے نام رکھ ہیں ان کے مقابلے میں یہ لفظ نہایت اعلیٰ وارفع اور اسلام کی واحدنیت کا ترجمان ہے اس ذات کو اسی نام یا اس کی بہترین صفات سے پکارا جائے۔ اللہ تعالیٰ نے قرآن کریم میں متعدد مقامات پر یہ تصریح فرمادی ہے کہ دنیا میں جہاں بہت سے برے لوگ ہیں وہیں اچھے لوگ بھی ہیں ۔ ان کی پہچان یہ ہے کہ وہ حقوق اللہ اور حقوق العباد کو ادا کرتے ہیں اور انصاف کا دامن ہاتھ سے نہیں چھوڑتے۔ نبی کریم ﷺ نے جب اعلان نبوت فرمایا اس وقت جہاں وہ لوگ تھے اللہ کو برے ناموں سے یاد کرے اور من گھڑت عقائد میں پھنسے ہوئے تھے وہیں وہ اچھے لوگ بھی تھے جو کفار کی ان باتوں سے نفرت کرتے تھے۔ اللہ تعالیٰ نے فرمایا کہ وہ لوگ جو برے راستوں پر چل پڑے ہیں ہم آہستہ آہستہ ان کے گرد اپنا گھیرا تنگ کررہے ہیں کیونکہ ہماری تدبیریں آہستہ ہوتی ہیں مگر پائیدار اور پختہ ہوتی ہیں۔
Top