Baseerat-e-Quran - Al-A'raaf : 31
یٰبَنِیْۤ اٰدَمَ خُذُوْا زِیْنَتَكُمْ عِنْدَ كُلِّ مَسْجِدٍ وَّ كُلُوْا وَ اشْرَبُوْا وَ لَا تُسْرِفُوْا١ۚ اِنَّهٗ لَا یُحِبُّ الْمُسْرِفِیْنَ۠   ۧ
يٰبَنِيْٓ اٰدَمَ : اے اولادِ قوم خُذُوْا : لے لو (اختیار کرلو) زِيْنَتَكُمْ : اپنی زینت عِنْدَ : قیب (وقت) كُلِّ مَسْجِدٍ : ہر مسجد (نماز) وَّكُلُوْا : اور کھاؤ وَاشْرَبُوْا : اور پیو وَلَا تُسْرِفُوْا : اور بےجا خرچ نہ کرو اِنَّهٗ : بیشک وہ لَا يُحِبُّ : دوست نہیں رکھتا الْمُسْرِفِيْنَ : فضول خرچ (جمع)
اے اولاد آدم (علیہ السلام) ! ہر نماز کے وقت اپنا لباس پہن لیا کرو ” کھائو ، پیو اور حد سے آگے نہ بڑھو بیشک اللہ حد سے بڑھنے والوں کو پسند نہیں کرتا
لغات القرآن آیت نمبر (31 تا 34 ) ۔ کلوا (کھائو) ۔ اشربوا (پیو ) ۔ لا تسرفوا (فضول خرچی نہ کرو) ۔ نفصل (ہم تفصیل سے بیان کرتے ہیں) ۔ الفواحش (بےحیائی و بےشرمی کے کام) ۔ ظھر منھا (جوان میں سے کھلی ہوئی ہیں ) ۔ بطن (جو چھپی ہوئی ہیں) ۔ الاثم (گناہ) ۔ البغی (زیادتی ) ۔ لم ینزل (نہیں اتارا) ۔ سلطان (دلیل۔ سند) ۔ اجل (مقرر وقت۔ موت) ۔ لا یستاخرون (پیچھے نہ ہٹ سکیں گے ) ۔ ساعتہ (ایک گھڑی) ۔ لایستقدمون (آگے نہ بڑھ سکیں گے) ۔ تشریح : آیت نمبر (31 تا 34 ) ۔ ” ان آیات میں چھ بنیادی باتیں ارشاد فرمائی گئی ہیں۔ 1) عبادت اور زیب وزینت، عبادت اور اچھا کھانا پینا ۔۔۔۔ ان کا اجتماع۔۔۔۔ ۔ یہ دین اسلام کی تعلیمات کا فیض ہے ۔۔۔۔ بدھ، جین، ہندو، پارسی، اور کنفیوشس مذاہب میں رہبانیت ہی رہبانیت ہے۔ عیسائیت اور یہودیت میں عبادت کم اور کھانا، پینا شراب و کباب اور شباب و عیش و عشرت زیادہ ہے۔ جیسے کرسمس اور ایسٹر کی تقریبات سے اندازہ کیا جاسکتا ہے۔ یہ دین اسلام ہی ہے جو عام زندگی میں ننگے رہنے کو منع کرتا ہے، گرد آلود سر اور گندے جسم کا شدید مخالف ہے جو خواہ مخواہ فاقہ زدگی، بیمار شکل، کمزوری اور تلاش ہمدردی کو ذہنی تباہی سمجھتا ہے جو نہانے دھونے، صفائی ستھرائی، اور سلیقہ مندی ، خوشبو، صاف ٹوپی یا عمامہ، صاف جوتے، ناخن کٹے ہوئے، داڑھی کنگھی کی ہوئی، مونچھ صاف ورنہ با سلیقہ، ناک آنکھ، کان، اور ہاتھ پیرصاف بلکہ طاہر وپاکیزہ۔ ان چیزوں پر اتنا زور دیتا ہے کہ وہ بھی عبادت کا لازمی حصہ ہیں۔ یہ سڑکوں، پہاڑوں، جنگلوں اور ساحلوں اور مزاروں پر ننگ دھڑنگ میلے کچیلے بدبو دار، بدقماش بےکار، مجرد مفلس اور مست ملنگ فقیر درویش بےعلم بےعقل، کھوئے ہوئے بد حواس بےقیمت، بےقدرتیاگی اور جوگی ملتے ہیں۔ یہ ہرگز ہرگز اسلام کے نمائندے نہیں ہیں۔ اسلام کے نمائندے تو وہ لوگ ہیں جو حسن ظاہر اور حسن باطن کو لازم و ملزوم بنائے ہوئے ہیں۔ جنکی شخصیت میں اتنی کشش اور جاذبیت ہے کہ دورونزدیک سے لوگ گرویدہ ہو کر آتے ہیں اور ان کیا رد گرد جمع رہتے ہیں جن سے وہ تبلیغ دین کا کام لیتے ہیں۔ 2) عبادت۔۔۔۔ ۔ مسلم کی زندگی چوبیس گھنٹے اور بارہ ماہ عبادت ہی عبادت ہے، صرف پانچ وقت کی نمازوں ہی کو دیکھ لیا جائے تو معلوم ہوگا۔ کہ ایک مسلم کو خلوت سے نکل کر جلوت میں آنا ہے وہ نہ صرف ہر وقت پاک، طاہر اور خاص اوقات میں باوضو رہنے پر مجبور ہے بلکہ سلیقہ شعار، پسندیدہ اطوار، ملبوس اور مزین رہنے پر بھی مجبور ہے۔ وہ خوب سیرت ہی نہیں بلکہ خوب صورت بھی ہوتا ہے۔ خوش کلام بھی، خوش مزاج بھی ہوتا ہے۔ حضور اکرم ﷺ کی زندگی کے رات اور دن کو دیکھا جائے تو یہ حقیقت سامنے آتی ہے کہ آپ رات کو سر کا تیل، کنگھا آئینہ ، خوشبو اور مسواک اپنے قریب رکھتے تھے۔۔۔۔ آپ ﷺ کے نواسے حضرت حسن ؓ جب اللہ سے ملنے کو (نماز کیلئے) جاتے تو اپنا بہتین لباس پہن کرجاتے تھے، وہ اسی آیت ” خدا وازینتکم عند کل مسجد “ کو اور اس مبارک حدیث ” ان اللہ جمیل ویحب الجمال “ کو پیش کیا کرتے تھے۔ مردوں کے لئے سر کی ٹوپی یا عمامہ اور عورتوں کے لئے ڈوپٹہ اور چادر (جس سے ان کا سارا جسم چھپ جائے) یہ بھء زیب وزینت ہے۔ یہ چیزیں انسان کو گردوغبار سے بچاتی ہیں، حسن اور وقار کو بڑھاتی ہیں۔ 3) اللہ تعالیٰ نے فرمایا کہ ” کھائو، پیو، مگر حد سے آگے نہ بڑھو “ کیونکہ حد سے آگے بڑھنے ولاوں کو اللہ پسند نہیں کرتا۔۔۔۔ اس سے معلوم ہوتا ہے کہ اسلام تو ازن اور تناسب کا دین ہے کمی یا زیادتی دونوں ناپسندیدہ ہیں۔۔۔۔ ۔ اگرچہ حد سے آگے نہ بڑھنے کا حکم کھانے پینے (پہننے، اوڑھنے، مکان بنانے، اور سامان پھیلانے) کے سلسلے میں آیا ہے۔ لیکن اس میں عبادت کی طرف بھی اشارہ ہے کہ اس میں بھی اعتدال اور تو ازن کا خیال رکھا جائے نہ تو اتنی عبادت و ریاضت کی جائے کہ چہرہ اور جسم اپنی طاقت اور رونق ہی کھو بیٹھیں اور نہ کھانے پینے اور عیش و عشرت میں اس قدر مست ہوجائے کہ عبادتوں ہی سے غفلت اور سستی شروع ہوجائے۔ روح اور جسم دونوں کا خیال کر کے چلنا ہی اعتدال ہے۔ قرآن کریم نے جہاں کنجوسی کو ناپسندیدہ قرار دیا ہے وہیں فضول خرچی اور اڑائو، لٹائو، کی بھی سخت مذمت کی ہے۔ قرآن کریم میں ایسے لوگوں کو اس شیطان کا بھائی قرار دیا گیا ہے جو اللہ کا نافرمان ہے۔ حضرت عمر فاروق ؓ نے فرمایا ہے کہ زیادہ کھانے پینے سے بچو، اس سے جسم بھدا ہوجاتا ہے بیماریاں آتی ہیں۔ عمل میں سستی پیدا ہوجاتی ہے۔ اسراف اور فضول خرچی سرف کھانے پینے، اوڑھنے اور سامان عیش و عشرت ہی میں نہیں بلکہ زندگی کے ہر محاذ پر ہے۔ نبی کریم ﷺ نے اس بات کو بھی اسراف میں داخل کیا ہے کہ ” جب بھی کسی چیز کو جی جا ہے تو اس کو ہر حال میں پورا کیا جائے “۔ تفسیر روح المعانی اور تفسیر مظہری میں ایک واقعہ درج ہے کہ : خلیفہ ہارون رشید کے زمانہ میں بغداد میں ایک نصرانی حکیم رہتا تھا، اس نے ایک عالم علی بن حسین بن واقدی سے اعتراض کے طور پر کہا کہ تمہاری کتاب قرآن مجید میں طب سے متعلق کوئی بات نہیں آئی ہے۔ انہوں نے جواب دیا کہ قرآن کریم نے علاج سے زیادہ اہم احتیاط اور پرہیز کو قرار دیا ہے۔ تمام طب اور حکمت کو تین لفظون میں سمودیا ہے۔ ” کلو اواشربوا ولا تسرفوا “ کھائو پیو لیکن فضول خرچی نہ کرو نصرانی حکیم مان گیا۔ کہنے لگا کہ یہ تو ٹھیک ہے لیکن حدیث رسول ﷺ میں طب کے متعلق کچھ نہیں بتایا گیا۔۔۔۔ ۔ انہوں نے جواب کے طور پر نبی کریم ﷺ کے تین ارشادات نقل کئے جن کا خلاصہ یہ ہے۔ (1) معدہ بیماریوں کا گھر ہے (2) نقصان دینے والی چیزوں سے پرہیز کرو (3) ہر بدن کو وہ چیز دو جس کا وہ عدی ہو (بشرطیکہ حرام نہ ہو) نصرانی حکیم نے ان ارشادات کے سامنے اپنی گردن جھکا دی اور مان گیا۔ قرآن و حدیث نے جو حلال و حرام کی پابندیاں لگا دی ہیں ان کا خاص تعلق انسان کی صحت سے بھی ہے اور مزاج سے بھی۔۔۔۔ حرام چیزوں کی ایک طویل فہرست دے دی ہے بقیہ چیزوں کو حلال قرار دے دیا ہے۔ آگے چل کر فرمایا گیا کہ۔ ۔۔ ۔ اے نبی ﷺ ! آپ ان سے پوچھئے کہ زیب وزینت کی جن چیزوں کو اللہ نے حلال قرار دیا ہے ان کو کس نے حرام کردیا ہے۔ آخر اللہ تعالیٰ نے ان چیزوں کو اپنے بندوں ہی کے لئے بنایا ہے ۔۔۔۔ ۔ اور جب اللہ نے کسی چیز کو حلال قرار دے دیا ہے تو اب کسی کو اس بات کا حق نہیں پہنچتا کہ وہ ان کو حرام قرار دے دے۔ مشرکین اور کفار کا یہ گھمنڈ کہ ہم اللہ کے محبوب بندے ہیں اسی لئے تو دنیا کی ساری چیزیں ہمارے قدموں کے نیچے ہیں اور مسلمان اس سے محروم ہیں۔ قرآن کریم کی اگلی آیت میں اس کا جواب دیا گیا ہے۔ فرمایا کہ دنیا کی یہ نعمتیں جو تمام دنیا والوں کو بلا تفریق اور بلا حساب مل رہی ہیں اس کی وجہ یہ ہے کہ اللہ نے اپنی رزاقیت اور رحمانیت سے یہی پالیسی طے کی ہوئی ہے لیکن قیامت میں فیصلہ ہونے کے بعد یہ چیزیں اہل دوزخ کو نہ لم سکیں گی۔ ان کی قسمت میں تو جہنم کی آگ اور شجر زقوم ہوگا۔ دنیا کی اور آخرت کی تمام نعمتیں صرف اور صرف اہل ایمان کے لئے مخصوص ہونگی۔ 5) اوپر حرام کاموں کی جو فہرست دی گئی ہے ان میں صرف ایک ہی لفظ ” اثم “ یعنی گناہ۔ ۔۔ ۔ اپنی لپیٹ میں ہر غلط اور گناہ کی چیز کو رکھتا ہے۔ اس میں بےحیائی بغاوت ، شرک تہمت سب شامل ہیں۔ ۔۔ ۔ حقیقت کی نگاہ سے دیکھا جائے تو یہ بات سمجھ میں آتی ہے کہ ہر غلط کام خواہ وہ چھوٹا ہو یا بڑا اس کا نقطہ آغاز یہی ” گناہ “ ہے۔ بڑے سے بڑا جرم ، بڑی سے بڑی شخص، گروہی یا قومی عادت و خصلت ، بڑے سے بڑا ضلم، فتنہ و فساد سب کی ابتداء میں ایک ناقابل التفات حقیر ترین نقطہ سیاہ ہے (گناہ) ۔۔۔۔ ۔ ایک بیج ہے جو تناور درخت بن جانے کی صلاحیت رکھتا ہے۔ اور یہ ابتدائی ” نقطہ سیاہ “ شعور سے زیادہ لا شعور میں جنم لیتا ہے۔ کتنی عجیب بات ہے کہ یہ کفار و مشرکین کھانے پینے اور پہننے میں تارک ال دنیا بنے ہوئے ہیں اور اپنے جسم کو عذاب در عذاب کے مستحق بنا رہے ہیں۔ بڑے سے بڑا گناہ دل کھول کر کیا کرتے ہیں اور کسی حد پر نہیں ٹھرتے۔۔۔۔ ۔ ظاہر اور پوشیدہ دونوں طرح کی بےحیائی اور بدکاری انکی گھٹی میں پڑی ہوئی ہے۔۔۔۔ ہر طرح کا چھوٹا بڑا گناہ ظلم، چوری، ڈکیتی، دھوکہ، غصب، خیانت، ماردھاڑ اور قتل سب ان کے خمیر میں داخل ہے بلکہ انتہا تو یہ ہے کہ اگر کہیں حق کا نظام قائم ہو رہا ہے یا ہوگیا ہے تو اس کے خلاف سازشوں کے جال پھیلانے اور بغاوت سے باز نہیں آتے۔ انہوں نے اس کو اپنا مذہت بنا رکھا ہے جس میں اللہ کا نام تو محض تکلف یا سجاوٹ کے لئے ہے اصل میں معبود تو خود ان کا اپنا نفس ہے۔ تجارت کے لئے یا الزام ڈالنے کے لئے چند خیالی یا اصلی پیکر تراش لئے ہیں۔۔۔۔ اور پھر مزے کی بات یہ ہے کہ ان فرضی معبودوں کے نام کچھ کہانیاں، کچھ اقوال اور کچھ کتابیں تصنیف کرادی ہیں اور سارا الزام اللہ پر لگاتے ہیں کہ یہ ساب کچھ ہمیں اللہ نے دیا ہے۔ 6) آخر میں اللہ تعالیٰ نے خبردار کیا ہے کہ اے اہل مکہ جس طاقت اور دولت کے بھروسے پر تم ناز کررہے ہو اور ڈھیٹ بن کر گناہ پر گناہ کیے جارہے ہو وہ دولت اور طاقت چند روزہ ہے۔ ایک خاص وقت معین تک کے لئے ہے، اور جب وہ معین وقت آجائے گا تو پھر ایک لمحہ کی بھی مزید مہلت نہیں ملے گی۔ یہ اصول ہر فرد کے ساتھ بھی ہے اور ہر قوم کے ساتھ بھی۔
Top