Baseerat-e-Quran - Al-A'raaf : 35
یٰبَنِیْۤ اٰدَمَ اِمَّا یَاْتِیَنَّكُمْ رُسُلٌ مِّنْكُمْ یَقُصُّوْنَ عَلَیْكُمْ اٰیٰتِیْ١ۙ فَمَنِ اتَّقٰى وَ اَصْلَحَ فَلَا خَوْفٌ عَلَیْهِمْ وَ لَا هُمْ یَحْزَنُوْنَ
يٰبَنِيْٓ اٰدَمَ : اے اولاد آدم اِمَّا : اگر يَاْتِيَنَّكُمْ : تمہارے پاس آئیں رُسُلٌ : رسول مِّنْكُمْ : تم میں سے يَقُصُّوْنَ : بیان کریں (سنائیں) عَلَيْكُمْ : تم پر (تمہیں) اٰيٰتِيْ : میری آیات فَمَنِ : تو جو اتَّقٰى : ڈرا وَاَصْلَحَ : اور اصلاح کرلی فَلَا خَوْفٌ : کوئی خوف نہیں عَلَيْهِمْ : ان پر وَلَا هُمْ : اور نہ وہ يَحْزَنُوْنَ : غمگین ہوں گے
( یہ بات شروع میں ہی بتا دی گئی تھی کہ) اے اولاد آدم ! جب ہمارے رسول جو تم میں ہی سے ہوں گے تمہارے پاس میری آیتیں لے کر آئیں گے اس کے بعد جس نے تقویٰ اختیار کیا اور اصلاح کرلی، ان پر نہ تو کوئی خوف ہوگا اور نہ وہ رنجیدہ ہوں گے۔
لغات الا قرآن آیت نمبر (35 تا 39 ) ۔ یاتینکم (تمہارے پاس آئیں) ۔ ینال (پہنچے گا۔ ملے گا) ۔ نصیب (حصہ) ۔ یتوفون (موت دیں گے۔ جان نکالیں گے) ۔ تدعون (تم پکارتے ہو) ۔ ضلواعنا (ہم سے غائب ہوگئے۔ گم ہوگئے) ۔ شیدوا (وہ گواہ بن گئے) ۔ امم (امتیں۔ جماعتیں) ۔ خلت (گزر گئی۔ (گزر گئیں) ۔ لعنت (لعنت کی۔ (لعنت کریں گے) ۔ اختھا (اپنے ساتھی کو) ۔ ادرکوا (مل جائیں گے) ۔ ضعف (دو گناہ ) ۔ فضل (بڑائی ) ۔ تکسبون (تم کماتے ہو ) ۔ تشریح ـ آیت نمبر (35 تا 39 ) ۔” کفار اور مشرکین کو آگاہ کرنے کے لئے ان آیات میں چار بڑی حقیقتوں کو پیش کیا جا رہا ہے ان حقیقتوں کا تعلق اس دنیا کی زندگی سے بھی ہے اور اس کے بعد آنے والی آخرت کی زندگی سے بھی ہے۔ 1) اس دنیا میں قدم رکھنے سے پہلے ہی اللہ تعالیٰ نے تمام انسانی روحوں سے یہ وعدہ لے لیا تھا کہ تمہارا رب اللہ اور صرف اللہ ہے۔ وہی ذات ہے جو ہر طرح واجب الاطاعت ہے۔ تمام روحوں نے اللہ کی اسی ربوبیت کو تسلیم کرتے ہوئے عرض کیا تھا کہ ” جی ہاں آپ ہی ہمارے رب ہیں “ اس عہد اور وعدہ کو ” عہد الست “ کہا جاتا ہے۔ اسی وعدہ کی یاد دھانی کے لئے اللہ نے ہر دور اور ہر علاقے میں اپنے پاک بازبندوں کو نبی اور رسول بنا کر بھیجا تاکہ وہ انسانی روحوں کے اس وعدے کو یاد دلادیں۔ چناچہ جن لوگوں نے اپنی روحانی کیفیات کو اپنے اندر جھانک کر دیکھا انہوں نے نبیوں اور رسولوں کی تعلیم کو قبول کرلیا اور جو لوگ دنیا کی غفلت اور دنیا کی طلب میں دھنسے رہے انہوں نے انبیاء کی تعلیمات کو مذاق محسوس کیا اور صاف انکار کردیا۔۔۔۔ حضرت آدم (علیہ السلام) جب دنیا بھیجے گئے تو سب سے پہلے انہوں نے اس پیغام الہٰی اور شریعت الہٰی کو اپنی اولاد کے سامنے پیش کیا اور بتایا کہ عبادت کے لائق صرف اللہ ہی کی ذات ہے۔ اسی کا وعدہ تمہاری فطرت میں رکھ دیا گیا ہے اس کے بعد اللہ کے نبی اور رسول (علیہ السلام) تشرف لاتے رہے اور انہوں نے اپنی اپنی امتوں کو اس روحانی وعدے اور کفر و شرک سے توبہ کرنے کی طرف متوجہ فرمایا۔ یہاں تک کہ اللہ نے سارے نبیوں اور رسولوں کے آخر میں حضرت محمد رسول اللہ ﷺ کو اپنا آخری نبی اور رسول بنا کر ایک ایسی شریعت عطا فرمائی جو قیامت تک جاری وساری رہے گی۔ آپ کے بعد اب رسالت و نبوت کا دروازہ کچھ اس طرح بند کردیا گیا ہے کہ آپ کے بعد ہر وہ شخص جو نبوت کا دعویٰ کرے گا وہ نہ صرف جھوٹا ہے بلکہ وہ اور اس کے ماننے والے بھی اللہ کی ابدی لعنت کے مستحق ہیں۔ اب نہ تو کوئی ظلی، بروزی نہیں ہوگا۔ ، نہ کوئی وحی کا سلسلہ ہوگا۔ اور آپ کی امت کے بعد نہ کوئی اور امت ہوگی یہی نبوت، کتاب اور یہی امت قیامت تک رہے گی۔ 2) جب کفار اور مشرکین کے مرنے کا وقت آئے گا تو اس وقت موت کے فرشتے ان سے پوچھیں گے بتائو وہ بت اور وہ ہستیاں آج کہاں ہیں جب پر تمہیں بڑا بھروسہ تھا اور تم نے انہیں اپنا معبود بنا رکھا تھا وہ اس وقت اللہ کے عذاب سے بچانے کے لئے کیوں نہیں آئے ؟ ۔ کفار اور مشرکین بڑی حسرت سے کہیں گے کہ وہ معبود تو آج موجود نہیں ہیں وہ ہم سے نجانے کہاں گم ہو کر وہ گئے ہیں۔ انہیں آج اس بات کا پوری طرح احساس ہوگا۔ کہ واقعی وہ شدید غلطی پر تھے اور وہ جن کو اپنا معبود ، کارساز اور مشکل کشامانتے رہے تھے وہ آج ان سے گم ہوچکے ہیں۔ اس طرح وہ اپنے کفر پر خود ہی گواہ بن جائیں گے۔ اللہ تعالیٰ کی طرف سے حکم دیا جائے گا کہ ان سب کو جہنم میں جھونک دیا جائے اور اس طرح یہ کفار اور مشرکین اپنے برے انجام کو پہنچ جائیں گے۔ 3) جب ایک نسل کے لوگ جہنم میں جھونک دیئے جائیں گے تو وہ چیخ چیخ کر کہیں گے کہ ہم تو اپنے باپ دادا اور بزرگوں کے اندھے مقلد بنے رہے۔ ہم نے بت پرستی اور شرک کے کام ان سے سیکھے جو ہم سے پہلے تھے وہ اپنے گناہوں کا ذمہ دار اپنی پچھلی نسل اور اسکے بڑوں کو قرار دیں گے اور وہ اللہ سے درخواست کریں گے کہ اے اللہ بیشک ہم مجرم ہیں مگر ہمارے جرم اور گناہوں کا سبب یہ تھا کہ ہم سے پہلے جو لوگ تھے انہوں نے ہمیں سیدھے راستے پر چلنے کے بجائے گمراہی کے راستے پر چلایا۔ بیشک ہم مجرم ہیں لیکن وہ ہم سے بڑے مجرم ہیں جو ہزاروں تجربات اور علم کے باوجود ہمیں گمراہی اور کفر و شرک سے نہ بچا سکے۔ ایسے لوگوں کو دو گنا عذاب دیا جائے۔ پہلے والی نسل کے لوگ جواب میں فریاد کریں گے کہ اگر ہم نے تمہیں غلط راستے پر لگایا تھا تو تم کیوں لگ گئے۔ تم نے اپنی عقل کو استعمال کیوں نہ کیا۔ تمہارے زمانہ میں جو نبی تھا یا اس کی تعلیمات تھیں تم نے اس سے راہ ہدایت کیوں حاصل نہ کی۔ تم ہمارے بہکانے سے کیوں بہک گئے۔ ہم نے اگر تمہین بہکایا تو تم نے بھی تو اپنے سے بعد آنے والی نسلوں کو بہکانے میں کوئی کسر نہ اٹھارکھی تھی۔ اللہ تعالیٰ ان دونوں کے درمیان فیصلہ فرمائیں گے کہ تم دونوں ہی اس جرم میں برابر کے شریک ہو۔ ۔۔ ۔ تم دونوں کو یکساں عذاب دیا جائے گا۔ 4) اس سلسلہ میں نبی کریم ﷺ سے جو ارشادات نقل کئے گئے ہیں ان کا خلاصہ یہ ہے کہ دنیا میں ہر وہ قتل جو ” قتل ناحق “ ہے اس کی جنتی سزا قاتل کیلئے ہے اس کا اتنا ہی گناہ حضرت آدم (علیہ السلام) کے بیٹے قابیل کے نامہ اعمال میں بھی لکھ دیا جاتا ہے۔ جس نے قتل انسانی کی بنیاد رکھی ہے۔ جس کا مطلب یہ ہے کہ اگر کسی نے کوئی ایسا کام کیا جس سے کوئی گمراہ ہوگیا یا کوئی نسل گمراہ ہوگئی تو اس شخص پر جس نے ابتدا کی ہے اس پر اس گناہ کی پوری ذمہ داری ہے بعد میں آنے والے جو لوگ بھی اس راستے پر چلیں گے وہ بھی گناہ گارہوں گے اور جس نے اس کی ابتدا کی ہے اس کے نامہ اعمال میں بھی وہ گناہ لکھ دیا جائے گا اس کے برخلاف اگر کسی نے کوئی نیکی کا کام کیا اور بعد میں آنے والے لوگ اس کے بہتر اور نیک راستے پر چلے تو جتنا ثواب کرنے والے کو ملے گا اتناہی ثواب اس کے ابتداء کرنے والے کے نامہ اعمال میں بھی لکھ دیا جائے گا جیسے کسی نے کوئی مسجد تعمیر کی یا کوئی ایسی عمارت بنائی جس سے لوگ فائدہ حاصل کریں تو یہ چیزیں صدقہ جاریہ ہوجائیں گی اس سے معلوم ہوا کہ انسان جو بھی کام کرتا ہے وہ اس بات پر ضرورغور کرلے کہ کہیں ایسا تو نہیں ہے کہ اس سے کوئی ایسی خطا سر زد ہو رہی ہو جس سے دوسروں کے صراط مستقیم سے بھٹکنے کا اندیشہ ہو۔ مثال کے طور پر رشوت کو لیجئے۔ رشوت لینے والا اور دینے والا دونوں اس جرم میں برابر کے شریک ہیں ۔ کسی کا حق مارا گیا، ظلم ہور، بےانصافی ہوئی، بری راہ قائم ہوئی۔۔۔۔ ۔ یہ جرم یہیں تک نہیں رہتا بلکہ اس کے اثرات بہت دور تک پہنچتے ہیں مثلاً یہ گناہ افراد سے بڑھ کر معشرے میں، ملکی اقتصادیات اور انتظامات کے ڈھانچے کو تباہ کر کے رکھ دیتا ہے۔ لوگوں نے رشوت لینا دینا سیکھا۔ انصاف اور حق کا سوال ختم ہوا۔ اب بےایمانی فراث۔ غبن، ظلم، حرام خوری وغیرہ کے شخصی اور قومی دروازے کھلتے چلے جائیں گے۔ بد انتظامی شروع ہو جاے گی اور ان سب کے اثرات آنے والی نسلوں تک پہنچ کر رہیں گے۔ جس سے بد انتظامی پھیلتی چلی جائے گی اور آنے والی نسلوں کو یہ میراث کے طور پر ملے گی۔ اب فرض کیجئے ایک شخص نے رشوت کے اس دروازے کو کھولا تو اس کے اثرات ملک گیر بلکہ عالم گیر سطح تک پہنچ جائیں گے کیا سللہ کا انصاف اسکو چھوڑ دے گا۔ جس نسل نے تبلیغ و تنظیم اور جہاد سے منہ پھیرلیا اور حکومت کے انتظامات بےایمانوں، چوروں ، ڈاکوؤں اور راشیوں کے حوالے کر دئیے گئے کیا وہ نسل غلط باتوں کو اختیار کرنے کے جرم میں اللہ کے ہاں پکڑی نہ جائے گی۔ حقیقت یہ ہے کہ ہمارا ہر اٹھا ہوا قدم اس کائنات میں اپنے اثرات مرتب کرتا چلا جاتا ہے۔
Top