Baseerat-e-Quran - Al-A'raaf : 65
وَ اِلٰى عَادٍ اَخَاهُمْ هُوْدًا١ؕ قَالَ یٰقَوْمِ اعْبُدُوا اللّٰهَ مَا لَكُمْ مِّنْ اِلٰهٍ غَیْرُهٗ١ؕ اَفَلَا تَتَّقُوْنَ
وَاِلٰي : اور طرف عَادٍ : عاد اَخَاهُمْ : ان کے بھائی هُوْدًا : ہود قَالَ : اس نے کہا يٰقَوْمِ : اے میری قوم اعْبُدُوا : عبادت کرو اللّٰهَ : اللہ مَا لَكُمْ : تمہارے لیے نہیں مِّنْ : کوئی اِلٰهٍ : معبود غَيْرُهٗ : اس کے سوا اَفَلَا تَتَّقُوْنَ : تو کیا تم نہیں ڈرتے
اور قوم عاد کر طرف ہم نے ان کے بھائی ہود (علیہ السلام) کو بھیجا۔ انہوں نے کہا ! اے میری قوم کے لوگو ! اللہ کی عبادت و بندگی کرو۔ اس کے سوا تمہارا کوئی معبود نہیں ہے۔ پھر کیا تم اسی سے خوف اور امید نہیں رکھو گے ؟
لغات القرآن آیت نمبر (65 تا 70 ) ۔ سفاھتہ (بےوقوفی۔ بےعقلی) ۔ نظن (ہم گمان کرتے ہیں۔ ہم سمجھتے ہیں) ۔ امین (ایماندار) ۔ بصطتہ (پھیلاؤ) ۔ الاء (الی) ۔ نعمتیں) ۔ اجئتنا (کیا تو ہمارے پاس آیا ہے) ۔ لنعبد اللہ (تاکہ ہم اللہ کی عبادت و بندگی کریں) ۔ وحدہ (اس اکیلے کی۔ تنہا کی) ۔ ابائونا (ہمارے باپ دادا) ۔ فاتنا (پس تو لے آ) ۔ تعدنا (تو ہم سے وعدہ کرتا ہے) ۔ تشریح : آیت نمبر 65 تا 70 ) ۔ ” قوم عاد دنیا کی قدیم ترین قوموں میں سے ایک قوم ہے اللہ نے ان کو ہر طرح کی نعمتوں سے نوازا تھا مگر وہ قوم ان نعمتوں کو پا کر ایسی مد ہوش ہوگئی کہ پھر ان کو ہر نصیحت کرنے والا برا لگنے لگا تھا۔ اس قوم کی حکومت و شوکت اور زبردست طاقتوں کے سامنے ساری دنیا بےبس تھی مگر ان کے غرور، تکبر اور اللہ کی نافرمانیوں نے ان کو اس طرح صفحہ ہستی سے مٹا دیا کہ آج ان کی بلند وبالا عمارتوں کے کھنڈرات بھی مٹ چکے ہیں۔ حضرت ہود (علیہ السلام) کو اس قوم کی اصلاح کے لئے بھیجا گیا تھا۔۔۔۔ ۔۔ حضرت ہود (علیہ السلام) کی یہ قوم مشرک تھی جس نے شرک و بدعات کے ایسے طریقے ایجاد کر رکھے تھے جن سے وہ اللہ کی وحدانیت سے بہت دور جاچکے تھے حضرت ہود (علیہ السلام) نے اس مشرک قوم سے سب سے پہلے جو بات کی وہ یہ تھی کہ اللہ اور صرف اللہ ہی کی حاکمیت کو تسلیم کرو جس کے سوا تمہارا کوئی معبود نہیں ہے۔ اس کی بندگی اور عبادت ہی سب سے بڑی نعمت ہے۔ بندگی اور عبادت کیا ہے ؟ تقویٰ ہے یعنی نہ صرف ظاہری رسوم پر ستش بلکہ تمام خوف اور تمام امیدوں کو اللہ سے وابستہ کرلینا۔۔۔۔ ۔۔ زبان پر صرف یہی ایک جذبہ ہو ” ایاک نعبد وایاک نستعین “ اے اللہ ہم تیری ہی بندگی کرتے ہیں اور تجھ سے ہی مدد مانگتے ہیں یعنی ہم عبادت و بندگی بھی تیری ہی کرتے ہیں اور مدد بھی تجھ سے ہی مانگتے ہیں یہ نہیں کہ عبادت ہم تیری کرتے ہیں اور غیر اللہ کے دروں پر جا کر ان سے مرادیں مانگتے ہیں۔۔۔۔ ۔ یہ کیفیت شرک میں تو ہو سکتی ہے دین اسلام میں نہیں۔ کیونکہ وہاں بندہ آقا ہوتا ہے جس کی جا ہے جیسے پرستش کرے نہ کرے جس کو مانے نہ مانے جس سے دعا مانگے نہ مانگے۔ شرک ہمیشہ بہت معمولی انداز میں شروع ہوتا ہے پھر یہ ایک قومی بیماری بن جاتی ہے۔ جب شرک قومی سطح پر ابھر کر سامنے آجاتا ہے تو اس کے مجاور قوم کی دولت اور سیاسی اقتدار لوٹنے کے لئے مذہبی لبادہ سے بہتر اور آسان تر کوئی طریقہ نہیں پاتے۔ اگر مصنوعی معبودوں کی مارکیٹ ویلیو گھٹنے لگتی ہے تو ان کی اجارہ داری ڈولنے لگتی ہے اس لئے تحریک توحید کی سب سے پرزور مخالفت اس ہر اول دستے نے کی ہے اور عوام کی بھیڑ ان کے پیچھے پیچھے چل پڑتی ہے کیونکہ اس میں علم نام کی کوئی چیز نہیں ہوتی چند تمناؤں کا نام دین بن کر وہ جاتا ہے اور یہ آسان ہے۔ اس ہر اول دستہ کے ہاتھ میں چند ہتھیار ہوتے ہیں (1) اپنی معلومات معقولات کا گھر وندا بچانے کے لئے وہ اصلاح کرنے والے شخص کے علم و عقل کے مرکز پر حملہ کرتا ہے اور کہتا ہے کہ ’ تم جاہل، احمق اور جھوٹے ہو “ اگرچہ وہ ان باتوں کے لئے کوئی دلیل پیش نہیں کرتا مگر وہ اپنے گھمنڈ میں اس طرح کہتا چلا جاتا ہے کہ بس جو کچھ ہم نے کہہ دیا وہی حق ہے اس کے بر خلاف ہر بات غلط ہے۔ اور ان کے ماننے والے ان کی ہر بات پر گردن ہلاہلا کر مہر تصدیق ثبت کرتے چلے جاتے ہیں۔ حضرت ہود (علیہ السلام) سے بھی یہی کہا گیا کہ اے ہود (علیہ السلام) ہم تو یہ دیکھ رہے ہیں کہ یا تو تم نرے احمق اور نادان ہو اور یا جھوٹے ہو ) نعوذباللہ) پیغمبران کی احمقانہ باتوں کے جواب میں صرف یہ کہتے ہیں کہ لوگو ! یہ تمہارا خیال ہے ورنہ حقیقت یہ ہے کہ میرے اندران عیبوں میں سے کوئی عیب نہیں ہے جس کو تم کہہ رہے ہو بلکہ میں تو رب العالمنا کا بھیجا ہوا ہوں اور میں اسی پیغام کو تم تک پہنچا رہا ہوں اور میں تمہارا خیر خواہ اور بھلا چاہنے والا ہوں یعنی میں تمہاری دنیا اور آخرت سدھار نے کی بات کر رہا ہوں جس میں میرا کوئی ذاتی مفاد نہیں ہے۔ (2) جیسے لوگوں کا دوسرا ہتھیار یہ ہوتا ہے کہ ” یہ کیسے ممکن ہے کہ جو شخص ہمارے اندر پیدا ہوا ہے۔ ہماری طرح شادی بیاہ کرتا ہے وہ کھاتا پیتا ہے اور بازاروں میں چلتا پھرتا ہے جو ہم جیسا ہے وہ اللہ کا پیغمبر کیسے ہو سکتا ہے آخر اس میں کیا خوبی ہے اور ہمارے اندر کیا خرابی ہے ایسا لگتا ہے کہ یہ شخص ہماری سرداری اور اقتدار ہم سے چھین کر خود سردار بننا چاہتا ہے انبیاء کرام (علیہ السلام) کر طرح حضرت ہود (علیہ السلام) سے بھی یہی کہا گیا اس کے جواب میں حضرت ہود (علیہ السلام) نے یہی فرمایا کہ ” کیا تمہیں اس بات پر تعجب اور حیرت ہے کہ ایک شخص تم ہی میں سے تمہارے پاس اللہ کی وحی لے کر آگیا تاکہ وہ تمہیں تمہارے برے انجام سے ڈراسکے۔ (3) ان لوگوں کا تیسرا ہتھیار ہوتا ہے کہ اے نبی اگر تم یہ کہتے ہو کہ ہم باز نہ آئے تو اللہ کا عذاب آجائے گا تو ایسا کرو تم اس عذاب کو لے ہی آئو جس سے تم روز روز ڈراتے ہو ۔ یہ ہمارے معبود ہمیں بچالیں گے۔ ہم اتنے احمق نہیں ہیں کہ تمہارے کہنے سے ہم ان تمام معبودوں کو چھوڑ دیں گے جن کو ہمارے باپ دادا اپنا معبود سمجھتے تھے۔ حضرت ہود (علیہ السلام) کا سنجیدہ جواب یہی تھا کہ تم پر اللہ کی پھٹکار تو پڑچکی ہے اب عذاب آنے میں بھی کیا دیر ہے۔
Top