Baseerat-e-Quran - Al-A'raaf : 88
قَالَ الْمَلَاُ الَّذِیْنَ اسْتَكْبَرُوْا مِنْ قَوْمِهٖ لَنُخْرِجَنَّكَ یٰشُعَیْبُ وَ الَّذِیْنَ اٰمَنُوْا مَعَكَ مِنْ قَرْیَتِنَاۤ اَوْ لَتَعُوْدُنَّ فِیْ مِلَّتِنَا١ؕ قَالَ اَوَ لَوْ كُنَّا كٰرِهِیْنَ۫
قَالَ : بولے الْمَلَاُ : سردار الَّذِيْنَ : وہ جو کہ اسْتَكْبَرُوْا : تکبر کرتے تھے (بڑے بنتے تھے) مِنْ : سے قَوْمِهٖ : اس کی قوم لَنُخْرِجَنَّكَ : ہم تجھے ضرور نکال دیں گے يٰشُعَيْبُ : اے شعیب وَالَّذِيْنَ : اور وہ جو اٰمَنُوْا : ایمان لائے مَعَكَ : تیرے ساتھ مِنْ : سے قَرْيَتِنَآ : ہماری بستی اَوْ لَتَعُوْدُنَّ : یا یہ کہ تم لوٹ آؤ فِيْ : میں مِلَّتِنَا : ہمارے دین قَالَ : اس نے کہا اَوَلَوْ : کیا خواہ كُنَّا : ہم ہوں كٰرِهِيْنَ : ناپسند کرتے ہوں
اس کی قوم کے تکبر کرنے والے سر داروں نے کہا کہ اے شعیب (علیہ السلام) ہم تجھے اور ان لوگوں کو جو تیرے ساتھ ایمان لائے ہیں اپنی بستی سے نکال دیں گے یا یہ کہ ہم تمہیں اپنی ملت میں لوٹا لیں گے۔۔۔۔ ( حضرت شعیب (علیہ السلام) کی قوم نے) کہا کیا اگرچہ ہم (تم سے بیزار ہوں) تب بھی لوٹالوگے ؟
لغات القرآن آیت نمبر (88 تا 93 ) ۔ لنخرجنک (البتہ ہم تجھے ضرور نکال دیں گے) ۔ من قریتنا (اپنی بستی سے) ۔ لتعو دن (البتہ تمہیں پلٹ کر آنا ہوگا۔ ) ۔ فی ملتنا (ہمارے دین میں) ۔ اولو کنا (کیا اور اگر ہم ہوں) ۔ کارھین (برا سمجھنے والے) ۔ ان عدنا (اگر ہم پلٹ گئے) ۔ تو کلنا (ہم نے بھروسہ کرلیا) ۔ افتح (کھول دے) ۔ تشریح : آیت نمبر (88 تا 93 ) ۔ ” یہ ہے دو نظریات کا ٹکراؤ ۔ یہ صورت حال صرف اہل مدین کے ساتھ نہیں۔ ہر دور اور ہر علاقہ اس آئینہ میں اپنی تصویر دیکھ سکتا ہے ورنہ اس کا اندراج قرآن کریم میں نہ ہوتا۔ اہل کفر وشرک بےایمانی کے وکیل بن کر کہہ رہے تھے کہ اس کے بغیر ہماری تجارت معاملات تہذیب و تمدن اور سیاسی مفادات ختم ہوجائیں گے ہم جو یہاں اتنی بڑی تجارتی شہہ رگ پر بیٹھے ہیں زمینی بھی اور سمندری بھی ۔۔۔۔ کیا ہم شعیب کی باتیں مان کر نیک بخت اور ایمان دار بن جائیں اور ان تمام عظیم فائدوں کو ہاتھ سے جانے دیں جو بےایمانی اور فریب سے ہمیں حاصل ہو رہے ہیں۔ لیکن اللہ کے پیغمبر نے اللہ کا پیغام دیتے ہوئے فرمایا کہ دنیا اور آخرت کا فائدہ ایمانداری اور دیانتداری میں ہے۔ تجارت اسی سے پھل پھول سکتی ہے لوگ اسی سے تم پر اعتماد کرسکیں گے دنیا اور آخرت کا فائدہ ان عقیدوں اور اصولوں میں پوشیدہ ہے جو اللہ تعالیٰ نے تمہیں عطا فرمائے ہیں۔ تجارتی بد دیانتی بظاہر خوب پھلتی پھولتی ہے اس کی رونق بھی خوب ہوتی ہے لیکن یہ پھلنا پھولنا اور رونق ایک عارضی سی چیز ہوتی ہے ڈھلتی چھاؤں ہے جب ڈھل گئی تو ہر طرف اندھیرا ہی اندھیرا پھیل جاتا ہے اسکے پیچھے عذاب جہنم ہے لیکن ایمان داری کا فائدہ ابدی فائدہ ہے مادی بھی اور روحانی بھی اور اس کے پیچھے جنت کی ہمیشہ رہنے والی نعمتیں اور اللہ کی رضا و خوشنودی ہے۔ نظریات کی یہ ٹکر صرف علمی اور عقلی ہی نہ تھی بلکہ سماجی معاشرتی اور سیاسی بھی تھی ایک طرف حکومت اور اقتدار کا زور تھا دوسرے طرف حق و صداقت پر استقامت اور اللہ کی ذات پر مکمل بھروسہ۔ کفروشرک کرنے والے اگرچہ دل ہی دل میں اسلام کی صحت اور معقولیت کو مان رہے تھے مگر دنیاوی لالچ اور وقتی مفادان کے لئے راستہ کی سب سے بڑی رکاوٹ تھی۔ اہل کفر و شرک نے ہر طرح کے لالچ اور دبائو اور دھمکیوں سے اہل ایمان کو مرعوب کرنا چاہا مگر اہل ایمان نے استقامت کا ثبوت دیا اور حالات کی نزاکتوں کے باوجود وہ اپنی جگہ جم کر کھڑے ہوگئے۔ نظریات کی جنگ میں ٹکرائو ضرور ہوتا ہے مگر ہمیشہ فتح اور کامیابی حق و صداقت کی ہوا کرتی ہے۔
Top