Baseerat-e-Quran - Al-Anfaal : 25
وَ اتَّقُوْا فِتْنَةً لَّا تُصِیْبَنَّ الَّذِیْنَ ظَلَمُوْا مِنْكُمْ خَآصَّةً١ۚ وَ اعْلَمُوْۤا اَنَّ اللّٰهَ شَدِیْدُ الْعِقَابِ
وَاتَّقُوْا : اور ڈرو تم فِتْنَةً : وہ فتنہ لَّا تُصِيْبَنَّ : نہ پہنچے گا الَّذِيْنَ : وہ لوگ جو ظَلَمُوْا : انہوں نے ظلم کیا مِنْكُمْ : تم میں سے خَآصَّةً : خاص طور پر وَاعْلَمُوْٓا : اور جان لو اَنَّ : کہ اللّٰهَ : اللہ شَدِيْدُ : شدید الْعِقَابِ : عذاب
اور اس آزمائش (وبال) سے ڈرتے رہو جو تم میں سے صرف ظالموں پر ہی نہ پڑے گی اور تم (اس بات کو) جان لو کہ اللہ شدید عذاب دینے والا ہے۔
آیات : 25 تا 26 لغات القرآن۔ لا تصیبن۔ تمہی نہیں پہنچے گا۔ یتخطف۔ وہ اچک لے گا۔ اوی۔ اس نے ٹھکانا دیا۔ اید۔ اس نے قوت دی۔ بنصرہ۔ اپنی مدد سے ۔ تشریح : قرآن کریم میں اس بات کو بار بار ارشاد فرمایا گیا ہے کہ جب کسی بستی میں کوئی وبا آتی ہے تو اس کی لپیٹ میں صرف وہی لوگ نہیں آتے جنہوں نے گندگی پھیلا کر وبا کو دعوت دی ہے بلکہ وہ تمام لوگ بھی آجاتے ہیں جو اپنی انفرادی زندگی مین بہت صاف ستھرے رہے ہوں۔ اسی طرح جب اللہ کا عذاب آتا ہے تو اس کی زد مین نہ صرف قصور اور خطار کار پکڑے جاتے ہیں بلکہ وہ سب لوگ بھی آجاتے ہیں جو شخصی زندگی میں بڑے پاک دامن ہیں۔ اس لئے ہر صاحب ایمان پر فرض ہے کہ وہ ان گناہوں کو جو وبائے عام کی صورت اختیار کرسکتے ہیں بنیادوں پر ہی اس کو روکنے کی کوشش کریں۔ ورنہ اگر یہ بند ٹوٹ گیا تو اس سیلاب میں ہر کس و ناکس بہہ جائے گا۔ اس وبا اور گناہ کو جڑ پرو روکنے کی تدبیر یہ ہے تبلیغ و نصیحت کے کسی پہلو کو نظر انداز کیا جائے۔ یہ تبلیغ و نصیحت انفرادی سطح سے اٹھا کر اجتماعی سطح تک بلند کی جائے۔ ایک ایسی تنظیمی اور اجتماعی کوشش اور جدوجہد جو برے لوگوں کو ان کی برائی سے روکنے اور اچھے لوگوں کو اچھے کاموں کی طرف راغب کرنے میں معاون ہو پھر بھی اگر بری اور گندگی ذہنیت کے لوگ ماننے کیلئے تیار نہ ہوں تو ان کے خلاف جماعتی طور پر کسی جہا د سے بھی گریز نہ کیا جائے۔ یہی بات سورة الاعراف کی آیات 123 تا 166 میں اصحاب السبیت کا واقعہ بیان کرتے ہوئے کہی گئی ہے۔ جب عذاب الٰہی آیا تو لپیٹ میں وہ بھی آگئے جو نہایت نیک اور پاکباز تھے صرف وہی لوگ بچائے گئے جنہوں نے اللہ کا دین پہنچانے کی جدوجہد کی تھی۔ پچھلی آیات میں کہا گیا ہے کہ جہاد روح حیات ہے اور ملت ہی کی زندگی سے افراد کی زندگی وابستہ ہے۔ اسی سورت میں بات کو ایک اور انداز سے دہرایا گیا ہے کہ جب سیلاب آئے گا تو وہ نیک و بد سب کو بہا کرلے جائے گا۔ اس لئے اس سیلاب کے آگے مضبوط باندھنے کی ضرورت ہے۔ مفسر قرآن حضرت عبد اللہ ؓ ابن عباس ؓ نے اس آیت کی تفسیر میں ارشاد فرمایا ہے کہ اللہ تعالیٰ نے اہل ایمان کو حکم دیا ہے کہ اپنے حلقہ اثر میں کسی جرم اور گناہ کو جڑ نہ پکڑنے دیں ورنہ گناہ گار اور بےگناہ سب اس کی لپیٹ میں آجائیں گے۔ حضرت ابوبکر صدیق ؓ نے خاتم الانبیاء حضرت محمد مصطفیٰ ﷺ سے روایت کی ہے کہ لوگ جب کسی ظالم کو دیکھیں اور ظلم سے اس کا ہاتھ نہ روکیں تو قریب ہے کہ اللہ تعالیٰ ان سب پر اپنا عذاب عام کردے (ترمذی) ۔ صحیح بخاری میں حضرت نعمان بن بشیر ؓ سے روایت ہے کہ رسول اللہ ﷺ نے فرمایا : جو لوگ اللہ تعالیٰ کے قانونی حدود توڑنے کے گناہگار ہیں اور جو لوگ قدرت کے باوجود انہیں گناہ سے روکنے کی کوشش نہیں کرتے ان کی مثال ایسی ہے جیسے کسی بحری جہاز میں اوپر نیچے دو طبقے ہوں نیچے والوں نے پانی حاصل کرنے کے لئے جہاز میں سوراخ کردیا۔ اوپر والے ان کی اس حرکت کو دیکھ رہے ہوں مگر منع نہ کرتے ہوں جب جہاز ڈوبے تو اوپر والے اور نیچے والے دونوں ہی پانی میں غرق ہوجائیں گے۔ چناچہ تمام مفسرین اس پر متفق ہیں کہ اس آیت میں ” فتنہ “ سے مراد امر بالمعروف اور نہی عن المنکر کا ترک کردینا ہے یعنی خیر کے کاموں کو پھیلانا اور برے کاموں سے روکنے کا سلسلہ جب بند ہوجائے گا تو پھر اللہ کا عذاب ایسی بستی کی طرف متوجہ ہوجایا کرتا ہے۔ بعض مفسرین نے لفظ ” فتنہ “ سے مراد ترک جہاد لیا ہے خصوصاً اس وقت جب کہ مسلمانوں کے خلیفہ وقت نے جہاد کی عام دعوت دیدی ہو اس وقت ترک جہاد کا وبال عوام و خواص سب پر پڑے گا۔ اور قرینہ یہ ہے کہ اس کی پچھلی آیات میں بھی ترک جہاد کرنے والوں اور میدان جنگ سے بھاگنے والوں کی مذمت کی ہے۔ سورۃ الانفال میں جہاد کی اہمیت پر زور دیتے ہوئے اللہ تعالیٰ وہ چھبتی ہوئی مثال پیش کی ہے جو سب پر ابھی بیتی ہے۔ یعنی ابھی کتنے دنوں کی بات ہے کہ تم مکہ مکرمہ میں مختسر تھے کمزور ومجبور اور بےکس تھے اور ہر وقت ڈرے سہمے رہتے تھے کہ کہیں کفار تمہیں چٹکیوں میں مسل دیں۔ لیکن اللہ کے حکم سے تم نے ہجرت کی اپنوں کو چھوڑا اور مدینہ کو اپنا ٹھکانا بنایا اس نے تمہیں ٹھکانا عطا فرمایا پھر تم نے اللہ کی راہ میں (بدر میں) جہاد کیا بےسروسامانی کے باوجود اس نے تمہیں فتح و نصرت عطا فرمائی سامان واسباب کے دروازے تم پر کھل گئے اور ساری دنیا پر تمہاری دھاک بیٹھ گئی اگر ہجرت اور جہاد نہ کرتے تو یہ سب کچھ حاصل نہ ہوتا اور دشمن تمہیں فنا کے گھاٹ اتارنے کی کوشش کرتا اس لئے ہجرت اور جہاد کیلئے اللہ تعالیٰ کا شکر بجالائو۔ شکر گزاری صرف یہی نہیں ہے کہ زبانی طو رپر ہی شکر ادا کردیا جائے بلکہ دین اسلام کی بقاء ترقی اور عظمت کے لئے اور باطل سے ٹکرانے کی مزید تیاری جاری رکھی جائے۔
Top