Baseerat-e-Quran - Al-Anfaal : 27
یٰۤاَیُّهَا الَّذِیْنَ اٰمَنُوْا لَا تَخُوْنُوا اللّٰهَ وَ الرَّسُوْلَ وَ تَخُوْنُوْۤا اَمٰنٰتِكُمْ وَ اَنْتُمْ تَعْلَمُوْنَ
يٰٓاَيُّھَا : اے الَّذِيْنَ : وہ لوگ جو اٰمَنُوْا : ایمان لائے لَا تَخُوْنُوا : خیانت نہ کرو اللّٰهَ : اللہ وَالرَّسُوْلَ : اور رسول وَتَخُوْنُوْٓا : اور نہ خیانت کرو اَمٰنٰتِكُمْ : اپنی امانتیں وَاَنْتُمْ : جبکہ تم تَعْلَمُوْنَ : جانتے ہو
اے ایمان والو ! تم اللہ اور رسول کی خیانت نہ کرو اور امانتوں میں بھی خیانت نہ کرو جب کہ تم جانتے ہو۔
آیات : 27 تا 29 لغات القرآن۔ لا تخونوا۔ خیانت نہ کرو۔ فتنۃ ۔ آزمائش۔ فرقان۔ حق و باطل کے درمیان فرق کرنیو الا۔ تشریح : اہل ایمان کو خطاب کرتے ہوئے اللہ تعالیٰ نے ارشاد فرمایا ہے کہ اے ایمان والو ! یہ جسم و جاں مال و اسباب یہ بال بچے۔ یہ علم و عقل یہ صحت و فراغت یہ اقتدار اختیار اپنے اور پرائے غرضیکہ جو کچھ بھی اور جتنا بھی تمہارے پاس ہے سب اللہ کی امانت ہے۔ تم صرف ایک امانت دار ہوں ان چیزوں کو اسی طرح استعمال کرو جس طرح اللہ اور اس کے رسول ﷺ نے تمہیں استعمال کرنے کا حکم دیا ہے۔ ان کو استعمال کرنے کا وقت بارہ مہینے اور گھنٹوں میں چوبیس گھنٹے ہیں ہوش پانے سے ہوش کھونے تک ہے۔ جو خیانت کرنے والے ہیں وہ تبلیغ دین سے بھاگتے ہیں کیونکہ اس میں علم و عقل اور استقلال کی ضرورت ہوتی ہے۔ وہ تنظیم اور تنظیمی کاموں سے بھاگتے ہیں کیونکہ اس میں ” انا اور نفس “ کو مارنے کی اور اطاعت امیر اور نظم و ضبط کی ضرورت ہے وہ جہاد سے بھاگتے ہیں کیونکہ اس میں اہل و عیال سے چھوٹنے کا خطرہ ہے۔ وقت، آرام اور جان و مال کی قربانی کا سوال ہے۔ سامان زندگی اور سامان عیش و آرام کو تج دینے کا سوال ہے۔ کون ہے جو یہ باتیں نہیں جانتا۔ کون ہے جب اس کی امانت میں خیانت ہوتی ہے تو وہ تڑپ نہیں اٹھتا۔ لیکن کس بےضمیری سے وہ ان امانتوں میں خیانت کرتا ہے جو اللہ نے اس کے پاس رکھوائی ہیں اور جو لوگوں نے اس کے پاس رکھوائی ہیں۔ حقیقت یہ ہے کہ یہ جان و مال علم و عقل یہ صحت و فراغت نہ صرف اللہ کی امانتیں ہیں بلکہ ان سب کے حقوق کا تحفظ ہوتا ہے۔ کلمہ طیبہ کا زبان اور دل سے اقرار اہل ایمان کو ان امانتوں میں خیانت اور دوسروں کے حقوق میں کمی سے روکتا ہے۔ وہ حقوق اللہ اور حقوق العباد میں تو ازن کا صحیح طریق سکھاتا ہے۔ اس آیت میں یہ کہا گیا ہے کہ یہ تمام چیزیں بندے کا ایک امتحان ہیں دیکھیں کون بےخطر آتش نمرود میں کود پڑتا ہے اور کون لب بام محو تماشا رہتا ہے۔ اس آیت میں یہ بھی کہا گیا ہے کہ بیشک مال و دولت اور اولاد میں بڑی کشش ہے یہ کشش ہی بڑی آزمائش ہے لیکن جو لوگ امتحان میں کامیاب ہوجاتے ہیں ان شکر گزار بندوں کے لئے اللہ نے بیشمار انعامات اور نعمتوں کا خزانہ محفوظ کر رکھا ہے جو انہیں جنت میں عطا کیا جائے گا۔ آگے فرمایا کہ اے مومنو ! تم اپنے دل میں خشیت الٰہی پیدا کرو ہر قدم جو تماٹھائو ہر کام جس کو تم ہاتھ لگائو پہلے غور کرلو کہ اس میں اللہ اور اس کے رسول کی خوشنودی اور رضا شامل ہے یا نہیں۔ اگر اس میں اللہ و رسول کی اطاعت ہے تو کو کر ڈالو اور اگر للہ اور رسول کی اطاعت کے خلاف ہے تو اس راستے سے ہٹ جائو اس مسلسل عمل سے تمہارے اندر ایک سلامتی کا مزاج پیدا ہوجائے گا۔ ایک قوت تمیزی زور پکڑلے گی۔ ایک ضمیر زندہ و تابندہ ہوجائے گا۔ تم خود اپنا فیصلہ آپ کرسکو گے۔ اور قرآن و سنت کی روشنی تمہاری رہنما بن جائے گی۔ اللہ بڑے فضل وکر والا ہے ” یہ آیت امید ہے۔ آیت تو کل ہے آیت تقویٰ ہے۔ آیت ہدایت ہے آیت وعدہ ہے اور آیت جنت ہے۔
Top