Baseerat-e-Quran - Al-Anfaal : 63
وَ اَلَّفَ بَیْنَ قُلُوْبِهِمْ١ؕ لَوْ اَنْفَقْتَ مَا فِی الْاَرْضِ جَمِیْعًا مَّاۤ اَلَّفْتَ بَیْنَ قُلُوْبِهِمْ وَ لٰكِنَّ اللّٰهَ اَلَّفَ بَیْنَهُمْ١ؕ اِنَّهٗ عَزِیْزٌ حَكِیْمٌ
وَاَلَّفَ : اور الفت ڈال دی بَيْنَ : درمیان۔ میں قُلُوْبِهِمْ : ان کے دل لَوْ : اگر اَنْفَقْتَ : تم خرچ کرتے مَا : جو فِي الْاَرْضِ : زمین میں جَمِيْعًا : سب کچھ مَّآ : نہ اَلَّفْتَ : الفت ڈال سکتے بَيْنَ : میں قُلُوْبِهِمْ : ان کے دل وَلٰكِنَّ : اور لیکن اللّٰهَ : اللہ اَلَّفَ : الفت ڈالدی بَيْنَهُمْ : ان کے درمیان اِنَّهٗ : بیشک وہ عَزِيْزٌ : غالب حَكِيْمٌ : حکمت والا
(وہی تو ہے) جس نے ان کے دلوں میں محبت و الفت ڈال دی ۔ اگر آپ زمین میں جو کچھ ہے وہ خرچ کرکے ان کے دلوں میں محبت ڈالنا چاہتے تو نہ ڈال سکے بلکہ اللہ نے ان کے دلوں میں محبت ڈالہی ہے۔ بیشک وہ زبردست اور حکمت والا ہے۔
آیات : 63 تا 66 لغات القرآن۔ الف۔ محبت ڈال دی۔ انفقت۔ تو نے خرچ کیا۔ حرض۔ رغبت دلائیے۔ آمادہ کیجئے۔ عشرون۔ بیس۔ ماتین۔ دو سو۔ لا یفقھون۔ وہ نہیں سمجھتے ہیں۔ الئن۔ اب۔ اس وقت۔ خفف۔ ہلکا کردیا۔ مائۃ۔ ایک سو۔ الف۔ ایک ہزار۔ تشریح : پچھلی آیتوں میں اللہ تعالیٰ نے حکم فرمایا تھا کہ دشمن کے مقابلے میں ہر ممکن قوت کو حاصل کرو تاکہ تمہارے دشمنوں پر تمہارا رعب جم جائے۔ ان آیات میں اس بات کی طرف اشارہ کی گیا ہے کہ اصل قوت و طاقت ہتھیر نہیں ہوتے بلک ہتھیاروں کے ساتھ ساتھ محبت، قربانی بھائی چارہ اخوت، اتحادو اتفاق، یک سوئی، یک نظری سب سے بڑا ہتھیار ہے۔ اگر کوئی قوم بہت سے ہتھیار جمع کرلے لیکن ان میں ڈسپلن، نظم وضبط اور سب سے بڑھ کر اتحادو بھائی چارہ اور ایثار و قربانی کا یہ انداز نہ ہو تو وہ کبھی کامیاب نہیں ہوسکتی۔ اس سے معلوم ہوا کہ ہتھیار اپنی جگہ بہت اہم ہیں ان کی تیاری میں کمی نہ کی جائے لیکن دشمن کے مقابلے میں اصل چیز جنگ کرنے والوں کا اتحادو اتفاق ہے جو میدنا کارزار میں انتہائی موثر ہتھیار ہے۔ آج ہم اپیئ ملت میں دیکھتے ہیں ان کی حکومتیں اسلحہ اور فوج پر تو سارا زور صرف کردیتی ہیں لیکن اس جذبہ کو پیدا نہیں کرتیں جو ان ہتھیاروں کو استعمال کرنے کا عظیم جذبہ ہوا کرتا ہے۔ ان آیات سے یہ بھی معلوم ہوا کہ یہ ” جذبہ “ محض نعروں اور باتوں سے پیدا نہیں ہوتا بلکہ اللہ کی طرف سے ہوتا ہے اور اللہ کی طرف سے جب ہوتا ہے جب اللہ تعالیٰ کے دین پر چل کر اللہ کو راضی کرلیا جائے۔ آج ہماری سب سے بڑی بدنصیبی یہ ہے کہ ہم دوسری قوموں کی نقل کرکے ان کا انداز اختیار کرتے ہیں اور دین اسلام جو ساری قوتوں کا ذریعہ ہے اس کو نظر انداز کردیتے ہیں جس کا نتیجہ ہمارے سامنے ہے۔ (2) اہل ایمان کی ہتھیاروں اور اتحاد و اتفاق کے بعد ایک اور نہایت اہم قوت ہے اور وہ ہے جہاد فی سبیل اللہ ۔ اللہ کے راستے میں جہادو قتال کرنا۔ یعنی یہ جہاد و قتال صرف اور صرف اللہ کے راستے میں اللہ کی رضا و خوشنودی کے لئے ہو۔ صحابہ کرام ؓ کی زندگی ہمارے سامنے ہے جنہوں نے ملکوں کو فتح کرنے یا دشمن کو صرف نیچا دکھانے کیلئے جہاد و قتال نہیں کیا بلکہ اللہ کے کلمے کو بلند کرنے کے لئے فرمایا جس کا نتیجہ یہ تھا کہ کامیابی ان کے قدم چومتی تھی۔ ملکوں کو فتح کرنا مقصد نہیں تھا لیکن جب اللہ کی رضاو خوشنودی کے لئے جدوجہد کی تو ساری دنیا کی حکومتیں اور ان کی طاقتیں بھی ان کے قدموں کی دھول بن گئیں۔ صحابہ کرام ؓ کے بعد جب مقصد زندگی صرف مملکتوں اور اقتدار کا حصول رہ گیا تو ساری دنیا نے ہمیں پچھاڑ کر رکھ دیا۔ اس لئے خاص طور پر اللہ تعالیٰ نے اپنے پیارے نبی ﷺ کو حکم دیا کہ اے نبی ﷺ ! آپ مسلمانوں کو جہاد پر آمادہ کرتے رہے۔ اور اس سے بےنیاز ہوجائیے کہ فتح حاصل ہوگی یا حاصل نہ ہوگی۔ صاف بات یہ ہے کہ قوت کا زمانہ ہو یا ضعف اور کمزوری کا اگر مومن مومن ہوں گے تو غلبہ اور فتح و نصرت ان کے قدموں کی خاک بن جائے گی۔ اللہ تعالیٰ نے اس وعدہ فرمایا ہے کہ اگر تم تھوڑے بھی ہوگے اور اللہ پر تمہارا اعتماد ہوگا تو فتح و کامرانی تمہاری ہوگی۔
Top