Home
Quran
Recite by Surah
Recite by Ruku
Translation
Maududi - Urdu
Jalandhary - Urdu
Junagarhi - Urdu
Taqi Usmani - Urdu
Saheeh Int - English
Maududi - English
Tafseer
Tafseer Ibn-e-Kaseer
Tafheem-ul-Quran
Maarif-ul-Quran
Tafseer-e-Usmani
Aasan Quran
Ahsan-ul-Bayan
Tibyan-ul-Quran
Tafseer-Ibne-Abbas
Tadabbur-e-Quran
Show All Tafaseer
Word by Word
Nazar Ahmed - Surah
Nazar Ahmed - Ayah
Farhat Hashmi - Surah
Farhat Hashmi - Ayah
Word by Word English
Hadith
Sahih Bukhari
Sahih Muslim
Sunan Abu Dawood
Sunan An-Nasai
Sunan At-Tirmadhi
Sunan Ibne-Majah
Mishkaat Shareef
Mauwatta Imam Malik
Musnad Imam Ahmad
Maarif-ul-Hadith
Riyad us Saaliheen
Android Apps
IslamOne
QuranOne
Tafseer Ibne-Kaseer
Maariful Quran
Tafheem-ul-Quran
Quran Urdu Translations
Quran Word by Word
Sahih Bukhari
Sahih Muslim
Mishkaat Shareef
More Apps...
More
Seerat-un-Nabi ﷺ
Fiqhi Masail
Masnoon Azkaar
Change Font Size
About Us
View Ayah In
Navigate
Open Surah Introduction
Surah
1 Al-Faatiha
2 Al-Baqara
3 Aal-i-Imraan
4 An-Nisaa
5 Al-Maaida
6 Al-An'aam
7 Al-A'raaf
8 Al-Anfaal
9 At-Tawba
10 Yunus
11 Hud
12 Yusuf
13 Ar-Ra'd
14 Ibrahim
15 Al-Hijr
16 An-Nahl
17 Al-Israa
18 Al-Kahf
19 Maryam
20 Taa-Haa
21 Al-Anbiyaa
22 Al-Hajj
23 Al-Muminoon
24 An-Noor
25 Al-Furqaan
26 Ash-Shu'araa
27 An-Naml
28 Al-Qasas
29 Al-Ankaboot
30 Ar-Room
31 Luqman
32 As-Sajda
33 Al-Ahzaab
34 Saba
35 Faatir
36 Yaseen
37 As-Saaffaat
38 Saad
39 Az-Zumar
40 Al-Ghaafir
41 Fussilat
42 Ash-Shura
43 Az-Zukhruf
44 Ad-Dukhaan
45 Al-Jaathiya
46 Al-Ahqaf
47 Muhammad
48 Al-Fath
49 Al-Hujuraat
50 Qaaf
51 Adh-Dhaariyat
52 At-Tur
53 An-Najm
54 Al-Qamar
55 Ar-Rahmaan
56 Al-Waaqia
57 Al-Hadid
58 Al-Mujaadila
59 Al-Hashr
60 Al-Mumtahana
61 As-Saff
62 Al-Jumu'a
63 Al-Munaafiqoon
64 At-Taghaabun
65 At-Talaaq
66 At-Tahrim
67 Al-Mulk
68 Al-Qalam
69 Al-Haaqqa
70 Al-Ma'aarij
71 Nooh
72 Al-Jinn
73 Al-Muzzammil
74 Al-Muddaththir
75 Al-Qiyaama
76 Al-Insaan
77 Al-Mursalaat
78 An-Naba
79 An-Naazi'aat
80 Abasa
81 At-Takwir
82 Al-Infitaar
83 Al-Mutaffifin
84 Al-Inshiqaaq
85 Al-Burooj
86 At-Taariq
87 Al-A'laa
88 Al-Ghaashiya
89 Al-Fajr
90 Al-Balad
91 Ash-Shams
92 Al-Lail
93 Ad-Dhuhaa
94 Ash-Sharh
95 At-Tin
96 Al-Alaq
97 Al-Qadr
98 Al-Bayyina
99 Az-Zalzala
100 Al-Aadiyaat
101 Al-Qaari'a
102 At-Takaathur
103 Al-Asr
104 Al-Humaza
105 Al-Fil
106 Quraish
107 Al-Maa'un
108 Al-Kawthar
109 Al-Kaafiroon
110 An-Nasr
111 Al-Masad
112 Al-Ikhlaas
113 Al-Falaq
114 An-Naas
Ayah
1
2
3
4
5
6
7
8
9
10
11
12
13
14
15
16
17
18
19
20
21
22
23
24
25
26
27
28
29
30
31
32
33
34
35
36
37
38
39
40
41
42
43
44
45
46
47
48
49
50
51
52
53
54
55
56
57
58
59
60
61
62
63
64
65
66
67
68
69
70
71
72
73
74
75
76
77
78
79
80
81
82
83
84
85
86
87
88
89
90
91
92
93
94
95
96
97
98
99
100
101
102
103
104
105
106
107
108
109
110
111
112
113
114
115
116
117
118
119
120
121
122
123
124
125
126
127
128
129
Get Android App
Tafaseer Collection
تفسیر ابنِ کثیر
اردو ترجمہ: مولانا محمد جوناگڑہی
تفہیم القرآن
سید ابو الاعلیٰ مودودی
معارف القرآن
مفتی محمد شفیع
تدبرِ قرآن
مولانا امین احسن اصلاحی
احسن البیان
مولانا صلاح الدین یوسف
آسان قرآن
مفتی محمد تقی عثمانی
فی ظلال القرآن
سید قطب
تفسیرِ عثمانی
مولانا شبیر احمد عثمانی
تفسیر بیان القرآن
ڈاکٹر اسرار احمد
تیسیر القرآن
مولانا عبد الرحمٰن کیلانی
تفسیرِ ماجدی
مولانا عبد الماجد دریابادی
تفسیرِ جلالین
امام جلال الدین السیوطی
تفسیرِ مظہری
قاضی ثنا اللہ پانی پتی
تفسیر ابن عباس
اردو ترجمہ: حافظ محمد سعید احمد عاطف
تفسیر القرآن الکریم
مولانا عبد السلام بھٹوی
تفسیر تبیان القرآن
مولانا غلام رسول سعیدی
تفسیر القرطبی
ابو عبدالله القرطبي
تفسیر درِ منثور
امام جلال الدین السیوطی
تفسیر مطالعہ قرآن
پروفیسر حافظ احمد یار
تفسیر انوار البیان
مولانا عاشق الٰہی مدنی
معارف القرآن
مولانا محمد ادریس کاندھلوی
جواھر القرآن
مولانا غلام اللہ خان
معالم العرفان
مولانا عبدالحمید سواتی
مفردات القرآن
اردو ترجمہ: مولانا عبدہ فیروزپوری
تفسیرِ حقانی
مولانا محمد عبدالحق حقانی
روح القرآن
ڈاکٹر محمد اسلم صدیقی
فہم القرآن
میاں محمد جمیل
مدارک التنزیل
اردو ترجمہ: فتح محمد جالندھری
تفسیرِ بغوی
حسین بن مسعود البغوی
احسن التفاسیر
حافظ محمد سید احمد حسن
تفسیرِ سعدی
عبدالرحمٰن ابن ناصر السعدی
احکام القرآن
امام ابوبکر الجصاص
تفسیرِ مدنی
مولانا اسحاق مدنی
مفہوم القرآن
محترمہ رفعت اعجاز
اسرار التنزیل
مولانا محمد اکرم اعوان
اشرف الحواشی
شیخ محمد عبدالفلاح
انوار البیان
محمد علی پی سی ایس
بصیرتِ قرآن
مولانا محمد آصف قاسمی
مظہر القرآن
شاہ محمد مظہر اللہ دہلوی
تفسیر الکتاب
ڈاکٹر محمد عثمان
سراج البیان
علامہ محمد حنیف ندوی
کشف الرحمٰن
مولانا احمد سعید دہلوی
بیان القرآن
مولانا اشرف علی تھانوی
عروۃ الوثقٰی
علامہ عبدالکریم اسری
معارف القرآن انگلش
مفتی محمد شفیع
تفہیم القرآن انگلش
سید ابو الاعلیٰ مودودی
Baseerat-e-Quran - At-Tawba : 1
بَرَآءَةٌ مِّنَ اللّٰهِ وَ رَسُوْلِهٖۤ اِلَى الَّذِیْنَ عٰهَدْتُّمْ مِّنَ الْمُشْرِكِیْنَؕ
بَرَآءَةٌ
: بیزاری (قطعِ تعلق)
مِّنَ
: سے
اللّٰهِ
: اللہ
وَرَسُوْلِهٖٓ
: اور اس کا رسول
اِلَى
: طرف
الَّذِيْنَ
: وہ لوگ جنہوں نے
عٰهَدْتُّمْ
: تم سے عہد کیا
مِّنَ
: سے
الْمُشْرِكِيْنَ
: مشرکین
اللہ اور اس کے رسول نے ان مشرکوں سے ہاتھ اٹھا لیا ہے جنہوں نے معاہدہ کرکے (اس کو توڑ دیا تھا)
تعارف : ٭اس سورة کے دو نام آتے ہیں۔ (1) سورة توبہ۔ (2) سورة برأت۔ ٭ توبہ کے معنی پلٹنے اور لوٹنے کے ہیں۔ جب کوئی اللہ کا بندہ گناہوں سے نادم ہو کر سچے دل سے اللہ کی طرف یعنی نیکیوں کی طرف پلٹتا ہے اس کو توبہ کہتے ہیں۔ چونکہ اس سورة میں چند صحابہ کرام ؓ کی توبہ قبول کی گئی ہے اس لئے اس کا نام سورة توبہ رکھا گیا ہے۔ ٭ سورة براء ت… براءت کے معنی چھٹکارا پانا۔ بیزاری اور نفرت کا اظہار کرنا ہے۔ چونکہ کفار و مشرکین مسلسل اپنی عہد شکنیوں کے مجرم تھے اس لئے مسلمانوں نے جو معاہدے کیے جاتے ان کو ختم کرکے کفار و مشرکین کو حرمین سے نکالنے اور کفارو مشرکین کی بد عہدیوں سے نفرت کا اظہار کیا گیا ہے۔ اس لئے اس کا سورة براءت بھی فرمایا گیا ہے۔ ٭ قرآن کریم کی تمام سورتوں کی ابتداء بسم اللہ الرحمن الرحیم سے اس لئے کی جاتی ہے کہ پڑھنے والے کو حصول برکت کے ساتھ ساتھ یہ بھی معلوم ہوجائے کہ ایک سورة ختم ہو کر دوسری سورة شروع ہوگئی ہے۔ اس لئے اس بات کو ذہن میں رکھیے کہ بسم اللہ کسی سورة کا جزو نہیں ہے۔ سورة توبہ کے شروع میں بسم اللہ نہیں لکھی گئی ہے اس کی وجہ کیا ہے ؟ ٭اس سلسلے میں بہت سے حضرات نے بہت سی باتیں کہی ہیں حضرت عثمان غنی ؓ جو کہ جامع القرآن ہیں جب ان سے اس کی وجہ پوچھی گئی کہ سورة توبہ کے شروع میں بسم اللہ نہ لکھنے کی کیا وجہ ہے ؟ تو آپ ؓ نے اس کے جواب میں فرمایا کہ رسول اللہ ﷺ پر جب بھی کوئی سورة یا آیات نازل ہوتیں تو آپ ﷺ کسی لکھنے والے کو بلا کر اسی وقت لکھوا دیتے۔ سورة انفال ان سورتوں میں سے ہے جو مدینہ منورہ کے ابتدائی دور میں نازل ہوئی جب کہ سورة توبہ آخری زمانے میں نازل ہوئی۔ ان دونوں سورتوں کے مضامین جو جہاد و قتال سے متعلق ہیں اس قدر ملتے جلتے اور ایک جیسے ہیں کہ میں سمجھا کہ سورة توبہ سورة انفال کا جزو ہے۔ چونکہ رسول ﷺ سے بھی کوئی خاص وضاحت سامنے نہیں آئی یہاں تک کہ آپ ﷺ اس دنیا قرآن کریم کی ہر سورة کی ابتداء بسم اللہ سے کی جاتی ہے صرف سورة کے شروع میں بسم اللہ نہیں لکھی جاتی۔ اللہ تعالیٰ نے نبی کریم ﷺ پر اور ان مہاجرین و انصار پر توجہ فرمائی ہے یعنی توبہ قبول کرلی جنہوں نے ایسی تنگی و پریشانی کے وقت پیغمبر کا ساتھ دیا جب کہ قریب تھا کہ ان میں سے ایک فریق کے دل پھرجائیں پھر وہ ان پر متوجہ ہوا۔ بیشک اللہ ان پر مہربان اور نہایت رحم کرنے والا ہے۔ سے رخصت ہوگئے۔ اسلئے میں نے دونوں سورتوں کو پاس پاس رکھ دیا اور بیچ میں بسم اللہ کو نہیں لکھا۔ ٭اب سورة توبہ کی جب بھی تلاوت کی جائے گی تو عام دستور کے مطابق اس کے شروع میں بسم اللہ نہ لکھی جائے گی نہ پڑھی جائے گی، البتہ اگر کسی نے اس سورة کے درمیان سے تلاوت شروع کی تو اس میں اعوذ باللہ کے ساتھ بسم اللہ پڑھنے میں کوئی حرج نہیں ہے۔ ٭ نبی کریم ﷺ نے مدینہ منورہ ، مکہ مکرمہ اور قبائل کے کفارو مشرکین سے آپس میں جنگ نہ کرنے کے معاہدے کیے ہوئے تھے مگر ان کی طرف سے مسلسل عہد شکنیوں اور بدعہدیوں کی وجہ سے فتح مکہ کے بعد حرمین کی سرزمین کو کفار و مشرکین کے وجود سے پاک کرنے کے احکامات دئیے تاکہ وہ تمام معاہدات جو پہلے سے کئے گئے تھے اب ختم کرکے حرمین کی سرزمین میں قیامت تک کفارو مشرکین کا داخلہ ممنوع کردیا جائے۔ فرمایا گیا ہے کہ چار مہینے یا کسی جاری معاہدے کی مدت ختم ہونے کے بعد اگر کفارو مشرکین اس سرزمین کو نہ چھوڑیں تو پھر ان سے قتال کیا جائے گا تاکہ کفر و شرک کے فتنے سے یہ سرزمین ہمیشہ کے لئے پاک ہوجائے گی۔ اور ان تین لوگوں پر بھی توجہ فرمائی جن کا معاملہ پیچھے رکھا گیا تھا۔ یہاں تک زمین اپنی وسعت کے باوجود ان پر ایسا بوجھ بن گئی تھی کہ ان کی جانوں پر بن آئی تھی۔ انہوں نے یہ سمجھ لیا تھا کہ اگر کوئی ٹھکانا ہے تو صرف اللہ ہی کی ذات ہے۔ ان تینوں حضرات حضرت کعب ابن مالک، مرارہ ابن ربیع اور حضرت ہلال ابن امیہ کی توبہ کو قبول کرلیا۔ آیات : 1 تا 6 لغات القرآن۔ براء ۃ۔ (براء ) ۔ چھٹکارا پانا۔ جان چھڑانا۔ عھدتم۔ تم نے معاہدہ کیا تھا۔ سیحوا۔ چلو پھرو۔ اربعۃ اشھر۔ چار مہینے ۔ غیر معجز اللہ۔ اللہ کو بےبس نہیں کرسکتے۔ مخزی۔ رسوا کرنے والا۔ اذان۔ اعلان ہے۔ الحج الاکبر۔ بڑا حج ( جس حج میں آپ ﷺ نے شرکت فرمائی) ۔ تبتم۔ تم نے توبہ کرلی۔ تولیتم۔ تم پلٹ گئے۔ لم ینقصوا۔ کمی نہ کی۔ لم یظاھروا۔ مدد نہ کی۔ اتموا۔ تم پورا کرو۔ انسلخ۔ نکل گیا۔ اقتلوا۔ جہاد کرو۔ وجدتھموھم۔ تم نے ان کو پایا۔ خذوا۔ پکڑو۔ احصروا۔ گھیرو۔ اقعدوا۔ بیٹھو۔ کل مرصد۔ ہر گھات کی جگہ۔ تابوا۔ انہوں نے توبہ کرلی۔ اقاموا۔ انہوں نے قائم کیا۔ اتوا۔ انہوں نے دیا۔ خلوا۔ چھوڑ دو ۔ سبیل۔ راستہ۔ ان احد۔ کوئی ایک۔ استجارک۔ آپ سے پناہ مانگے۔ اجرہ۔ اس کو پناہ دے سے۔ حتی یسمع۔ یہاں تک کہ وہ سن لے۔ ابلغہ۔ اس کو پہنچا دے۔ مامنہ، اس کی حفاظت کی جگہ۔ تشریح : سورۃ توبہ اور سورة براءت اس کے دو نام ہیں۔ اس سورت مین تین مخلص مسلمانوں کی توبہ قبول کرنے کا ذکر ہے اس لئے اس کو سورة توبہ کہتے ہیں اور اللہ اور اس کے رسول ﷺ کی طرف سے کفارو مشرکین سے ہاتھ اٹھا لینے اور بری الذمہ ہونے کے اعلان کی وجہ سے اس کو سورة براءت کہتے ہیں۔ قرآن کریم کی ہر سورت کے شروع میں ” بسم اللہ الرحم الرحیم “ لکھی ہوئی ہوتی ہے جو صرف اس بات کو علامت ہے کہ ایک سورت ختم ہونے کے بعد دوسری سورت شروع ہو رہی ہے۔ بسم اللہ قرآن کریم کی ایک آیت تو ہے جو سورة نمل میں آئی ہے لیکن ہر سورت کا جزو نہیں ہے۔ عام طریقے کے مطابق اس کے شروع میں ” بسم اللہ “ کیوں نہیں لکھی گئی یہ ایک سوال ہے ؟ جس کا صحابہ کرام ؓ اور علماء کرام نے جواب تحریر فرمایا ہے۔ (1) حضرت عثمان غنی ؓ فرماتے ہیں کہ مجھے یہ یاد نہیں ہے کہ سورة انفال اور سورة براءت دو سورتیں ہیں ایک سورت ہے ۔ مضمون کے لحاظ سے ایک سورت لگتی ہیں ممکن ہے دو سورتیں ہوں اس سلسلہ میں نبی کریم ﷺ کی کوئی واضح ہدایت مجھے یاد نہیں ہے۔ (2) بعض حضرات نے فرمایا ہے کہ اس زمانہ میں جنگی اصول اور عام رواج کے مطابق جب کوئی ایسا ” نقض معاہدہ “ (معاہدہ توڑنا) کی مراسلت ہوتی تھی تو اس میں اللہ کا نام نہیں لکھتے تھے چونکہ اس سورت مین کفار و مشرکین سے براءت، بےزاری اور دست برداری کا اعلان کیا گیا ہے ممکن ہے اس وجہ سے بسم اللہ نہ لکھی گوئی ہو۔ اللہ زیادہ بہتر جانتا ہے۔ بہرحال امن کے نزدیک یہ دو سورتیں کی جاتی ہیں اسی لئے سورة انفال کے بعد جب سورة توبہ شروع ہوتی ہے تو کچھ جگہ خالی ہوتی ہے جس میں بسم اللہ نہیں ہوتی۔ مسئلہ کی رو سے اب جب بھی سورة براءت شروع کی جائے گی تو اس کے شروع میں بسم اللہ نہ لکھی جائے گی اور نہ پڑھی جائے گی لیکن اگر کسی شخص نے سورة ٔ براءت کو کچھ حصہ پڑھ لیا اور رک گیا تو دوبارہ تلاوت کرتے وقت اعوذ باللہ کے ساتھ بسم اللہ پڑھ لے تو کوئی حرج نہیں ہے۔ سورة ٔ برأت کے پہلے رکوع (آیت نمبر 1 تا نمبر 6) میں کفارو مشرکین سے دست برداری کے اعلان اور اس عمل کرنے کا جو بھی حکم دیا گیا ہے اس کی تفصیل یہ ہے۔ (1) 6 ہجری میں نبی کریم ﷺ نے عمرہ ادا کرنے کا ارادہ فرمایا اور چودہ سو صحابہ کرام ؓ بیت اللہ کی زیارت کے لئے آپ کے ہمراہ ہوگئے۔ بیت اللہ جو اللہ کا گھر ہے اس میں موافق، مخالف، دوست اور دشمن کسی کو زیارت بیت اللہ سے روکنے کا کسی کو حق حاصل نہیں تھا۔ جب کفار مکہ کو یہ معلوم ہوا کہ نبی کریم ﷺ اور ڈیڑھ ہزار صحابہ ؓ رسول اللہ ﷺ عمرہ کرنے کے لئے حدیبیہ کے مقام تک پہنچ چکے ہیں تو وہ گھبرا اٹھے وجہ یہ تھی کہ اگر نبی مکرم ﷺ عمرہ ادا کرکے واپس جاتے ہیں تو قریش کی ہوا اکھڑ جائے گی اور اگر منع کرتے ہیں تو ساری دنیا میں یہ رسوائی ہوگی کہ اللہ کی عبادت سے اللہ کے بندوں کو روک دیا گیا پہلے تو کفار مکہ نے کچھ ایسی سازشیں کیں جن سے دنیا پر ظاہر کردیا جائے کہ نبی کریم ﷺ اور آپ صحابہ ؓ عبادت کے لئے نہیں بلکہ جنگ کرنے کے لئے آئے ہیں مگر ان کی ہر سازش اور چال کو نبی کریم ﷺ نے ان پر ہی الٹ دیا۔ بالآخر وہ اس بات پر راضی ہوگئے کہ ہم مسلمانوں کو عبادت سے تو نہیں روکتے لیکن اس سال ایک معاہدہ کرلیتے ہیں تاکہ آئندہ سال مسلمانوں کو عمرہ کرنے کی اجازت اور سہولت دیدی جائے۔ چناچہ ایک معاہدہ دس سال کے لئے طے پا گیا جس کو تاریخ میں ” صلح حدیبیہ “ کے نام سے یاد کیا جاتا ہے۔ کفار مکہ نے اندرونی اور بیرونی دبائو کی وجہ سے معاہدہ تو کرلیا۔ لیکن اس کا مقصد صرف وقت کو ٹالنا تھا۔ چناچہ کفار مکہ اور ان کے حلیفوں نے ایسی سازشیں ، حملے اور خفیہ کاروائیاں شروع کردیں جن سے اس معاہدہ کی دھجیاں بکھر کر رکھ دی گئیں۔ چونکہ اس معاہدہ کی خلاف ورزی کفار مکہ کی طرف سے کی گئی تو آپ ﷺ نے دس ہزار صحابہ ؓ کے ساتھ بغیر کسی خون خرابے کے 8 ہجری میں مکہ کو فتح کرلیا۔ مکہ فتح ہونے کا مطلب یہ تھا کہ پورے جزیرۃ العرب پر آپ کا اور آپ کے صحابہ کرام ؓ کا قبضہ ہوچکا ہے۔ لیکن کفارو مشرکین چوت کھائے ہوئے سانپ کی طرح اپنی انتقامی کاروائیوں میں مشغول رہتے تھے۔ فتح مکہ کے بعد پورے جزیرۃ العرب پر آپ کا مکمل کنٹرول ہوچکا تھا۔ لیکن اندرونی اور بیرونی خطرے بڑھتے ہی چلے جا رہے تھے اس وقت اللہ تعالیٰ کی طرف سے کفار و مشرکین سے دست برداری کا اعلان کردیا۔ ان آیات میں فرمایا گیا کہ اللہ اور اس کے رسول ﷺ کی طرف سے اعلان عام کیا جاتا ہے کہ مشرکین سے جو معاہدہ کیا گیا تھا اب اس سے دست برداری کا اعلان کیا جاتا ہے۔ اب کی حفاظت حکومت اسلامیہ کی ذمہ داری نہیں ہے۔ چار مہینے کی مدت دی جاتی ہے جس میں یہ اپنے مستقبل کے لئے کوئی فیصلہ کرسکتے ہیں (1) چار مہینے کے اندر اندر جو شخص کسی بھی جگہ جا کر اپنا ٹھکانا بنا سکتا ہو وہ بنا لے (2) یا وہ کفر و شرک سے توبہ کر کے اسلام قبول کرنا چاہے تو کرلے (3) لیکن اگر چار مہینے کی یہ مدت گزر گئی تو پھر ان کے صفایا کرنے میں کسی بھی کوشش کو نظر انداز نہیں کیا جائے گا۔ جہاں یہ پائے جائیں گے ان کو گھیر کر تاک تاک کر قتل کیا جائے گا۔ سیدنا حضرت ابوبکر صدیق ؓ سے نبی کریم و نے فرمایا کہ اے ابوبکر حج کے عظیم اجتماع میں جا کر اس بات کا اعلان کردو۔ پھر حضرت علی ؓ سے فرمایا کہ اے علی تم بھی جا کر ان آیتوں کو پرھ کر سب کو سنا دو اور اس کا اعلان عام کردو۔ چنانچہ 9 ہجری کے حج کے موقع پر اس کا اعلان کیا گیا۔ 10 ہجری میں نبی کریم ﷺ نے حج فرمایا تو اس موقع پر صرف اہل ایمان اس حج میں شریک تھے کفارو مشرکین کو نکال دیا گیا تھا۔ یہی وہ حج ہے جس کو حجتہ الوداع کہا جاتا ہے یہ آپ ﷺ کی دنیاوی زندگی کا آخری حج تھا اس حج کو حج اکبر فرمایا گیا ہے اور واقعتا اگر کوئی حج اکبر تھا تو وہ ہی تھا جس میں نبی کریم ﷺ اور صرف اہل ایمان شریک تھے اس کے بعد کسی حج کو حج اکبر نہیں کہا جاسکتا مگر یہ کہ حج اکبر حج اصگر کے مقابلے میں بولا جائے کیونکہ اہل عرب عمرے کو حج اصگر کہتے ہیں اسیبنیاد پر امام ابوبکر حصاص (رح) نے احکام القرآن میں فرمایا کہ ایام حج کو حج اکبر کا دن کہنے سے یہ مسئلہ بھی معلوم ہوگیا کہ یہ ایمام حج کے لئے مخصوص ہیں اور ان میں عمرہ نہیں ہوسکتا ہے۔ یہ جو لوگوں میں مشہور ہے کہ جو حج جمعہ کے دن پڑجائے وہ حج اکبر ہوتا ہے یہ بات صحیح نہیں۔ یہ اپنی جگہ ایک فضیلت ضرور ہے کہ یوم عرفہ جمعہ کے روز ہوجائے لیکن اس بیاہد پر اسے حج اکبر کہنا عوامی اصطلاح ہے اس سے زیادہ کچھ نہیں۔ شریعت کی رو سے اس بات کی کوئی حیثیت نہیں ہے۔ ان آیتوں میں پہلا حکم تو یہ تھا۔ (2) دوسرا حکم یہ فرمایا گیا کہ اللہ اور اس کے رسول ﷺ نے جس معاہدہ سے براءت کا اظہار فرمایا ہے اس میں یہ شرط ہے کہ اگر کسی قوم سے کوئی معاہدہ موجود ہے تو اس کا خیال رکھا جائے اور اپنی طرف سے معاہدہ کو نہ توڑا جائے۔ (3) یا اگر کسی قوم سے کوئی ایسا معاہدہ ہے جسکی مدت مقرر ہے تو اس مدت کو اور اس معاہدہ کو پورا کیا جائے۔ (4) چوتھی بات یہ فرمائی گئی کہ اگر کوئی مشرک آپ ﷺ سے پناہ کی درخواست کرے تو آپ اس کو۔ صرف اس وقت تک پناہ دے سکتے ہیں، اس کی حفاظت کرسکتے ہیں جب تک وہ اللہ کا کلام نہ سن لے۔ اگر وہ اللہ کا کلام سن کر ایمان لے آئے اور اسلامی احکامات نماز و زکوٰۃ کی پابندی کرلے تو فرمایا کہ اب اس کا راستہ چھوڑ دو ۔ لیکن اگر وہ اپنی کفر کی روش پر قائم رہتا ہے تو اس کو اس کی حفاظت کی جگہ پہنچا دیا جائے۔ (5) پانچویں بات یہ فرمائی گئی کہ جب اشھر الحرم گزر جائیں یعنی رجب ذی قعدہ، ذی الحجہ اور محرم۔ ان چار مہینوں کے گزر نے کے بعد پھر تم جہاں بھی مشرکین کو پائو۔ گھیرو اور ہر گھات میں بیٹھ کر ان کو قتل کردو اور ان کے ساتھ کسی طرح کی نرمی کا معاملہ اختیار نہ کرو۔
Top