Tafseer-e-Haqqani - At-Tawba : 113
مَا كَانَ لِلنَّبِیِّ وَ الَّذِیْنَ اٰمَنُوْۤا اَنْ یَّسْتَغْفِرُوْا لِلْمُشْرِكِیْنَ وَ لَوْ كَانُوْۤا اُولِیْ قُرْبٰى مِنْۢ بَعْدِ مَا تَبَیَّنَ لَهُمْ اَنَّهُمْ اَصْحٰبُ الْجَحِیْمِ
مَا كَانَ : نہیں ہے لِلنَّبِيِّ : نبی کے لیے وَ : اور الَّذِيْنَ اٰمَنُوْٓا : جو لوگ ایمان لائے (مومن) اَنْ : کہ يَّسْتَغْفِرُوْا : وہ بخشش چاہیں لِلْمُشْرِكِيْنَ : مشرکوں کے لیے وَلَوْ : خواہ كَانُوْٓا : وہ ہوں اُولِيْ قُرْبٰى : قرابت دار مِنْۢ بَعْدِ : اس کے بعد مَا تَبَيَّنَ : جب ظاہر ہوگیا لَھُمْ : ان پر اَنَّھُمْ : کہ وہ اَصْحٰبُ الْجَحِيْمِ : دوزخ والے
نبی ﷺ اور ان لوگوں کے لئے جو ایمان لے آئے ہیں یہ بات مناسب نہیں ہے کہ وہ مشرکین کے واسطے بخشش کی دعائیں مانگیں اگرچہ وہ رشتہ دار ہی کیوں نہ ہوں جب کہ یہ بات واضح ہوچکی ہے کہ وہ جہنم والے ہیں
لغات القرآن آیت نمبر 113 تا 114 ان یستغفروا (یہ کہ وہ دعائے مغفرت کریں) اولی قربی (رشتہ دار) اصحاب الجحیم (جہنم والے) موعدۃ (وعدہ) تبین (واضح ہوگیا) تبرا (وہ بیزار ہوگیا) اواہ (رحم دل) حلیم (برداشت کرنے والا) تشریح : آیت نمبر 113 تا 114 ان آیات میں اللہ تعالیٰ نے یہ ارشاد فرمایا ہے کہ وہ لوگ جن کا شرک ظاہر ہے ان کے لئے کسی کو بھی دعا مغفرت نہیں کرنی چاہئے خاص طور پر نبی جس کا مقام بلند تر ہوتا ہے اس کی شان کے خلاف ہے کہ وہ اپنے مشرک والدین یا عزیزوں کے لئے دعائے مغفرت کرے۔ فرمایا کہ حضرت ابراہیم خلیل اللہ نے جو اپنے والد کے لئے دعائے مغفرت کی تھی وہ ایک وعدہ کی بنیاد پر تھی جو انہوں نے اپنے والد سے کر رکھا تھا اور وہ بھی اس وقت کی تھی جب کہ ان پر یہ بات واضح نہیں تھی کہ وہ جہنمی ہے یا جنتی لیکن جب اس کے کفر و شرک کی بات واضح ہوگئی تو حضرت ابراہیم نے اپنے باپ سے بھی بیزاری کا اظہار فرما دیا تھا۔ ان آیات کے پس منظر کے طور پر بخاری و مسلم میں ایک رویات آئی ہے کہ نبی کریم ﷺ جن کو اپنے چچا حضرت ابو طالب ہے سے بےانتہا محبت تھی جنہوں نے زندگی بھر آپ ﷺ کی حمایت و نصرت فرمائی لیکن اسلام قبول نہیں کیا۔ آپ کی دلی خواہش تھی کہ حضرت ابوطالب دین اسلام کو قبول کرلیں اور کلمہ اسلام زبان سے ہی ادا کرلیں۔ حضرت ابو طالب کے انتقال کے وقت آپ کا یہ جذبہ اور بھی شدت اختیار کر گیا۔ آپ نے فرمایا کہ اے چچا آپ اسلام کا یہ کلمہ ادا کر لیجیے۔ حضرت ابوطالب کہنا بھی چاہتے ہوں گے مگر ابوجہل اور اس کے ساتھ یہ طعنہ دینے لگے کہ کیا مرتے وقت تم عبدالمطلب کا دین چھوڑ دو گے۔ یہ سن کر حضرت ابوطالب خاموش ہوجاتے۔ اور پھر ان الفاظ پر حضرت طالب کا اتنقال ہوگیا کہ میں عبدالمطلب کے دین پر ہوں۔ حضرت ابوطالب کے انتقال کے بعد آپ نے اس بات کا عہد کیا کہ میں ہمیشہ ان کے لئے دعائے مغفرت کرتا رہوں گا۔ اللہ تعالیٰ نے واضح طور پر فرما دیا کہ نبی کی شان کے خلاف ہے کہ وہ کسی ایسے رشتہ دار کے لئے دعائے مغفرت کرے جس کا شرک ظاہر ہے۔
Top