Baseerat-e-Quran - At-Tawba : 119
یٰۤاَیُّهَا الَّذِیْنَ اٰمَنُوا اتَّقُوا اللّٰهَ وَ كُوْنُوْا مَعَ الصّٰدِقِیْنَ
يٰٓاَيُّھَا : اے الَّذِيْنَ اٰمَنُوا : جو لوگ ایمان لائے (مومن) اتَّقُوا اللّٰهَ : ڈرو اللہ سے وَكُوْنُوْا : اور ہوجاؤ مَعَ : ساتھ الصّٰدِقِيْنَ : سچے لوگ
اے ایمان والو ! اللہ سے ڈرو اور سچے لوگوں کے ساتھ ہو جائو۔
لغات القرآن آیت نمبر 119 تا 121 کونوا (ہو جائو) الصدقین (سچ بولنے والے) ان یتخلفوا (یہ کہ وہ مخالفت کرلیں) لایرغبوا (رغبت نہ کریں) لا یصیب (نہیں پہنچے گا) ظما (پیاس) نصب (محنت، مشقت) مخمصۃ (بھوک) لایطنون (وہ نہیں روندے) موطنی (چلنے کی جگہ ) یغیط (غصہ میں آئیں) لاینالون (وہ حاصل نہیں کرتے) کتب (لکھا گیا، فرض کیا گیا) لایضیع (وہ ضائع نہیں کرتا) لاینفقون (وہ خرچ نہیں کرتے ہیں) نفقۃ صغیرۃ (معمولی خرچ) لایقطعون (وہ نہیں کاٹتے ہیں، وہ نہیں طے کرتے ہیں) وادیا (وادی، گھاٹی، میدان) احسن (زیادہ بہتر) تشریح :- آیت نمبر 119 تا 121 گزشتہ آیات میں منافقین اور مخلص اہل ایمان کا تفصیل سے ذکر کیا گیا ہے منافقین نے غزوہ تبوک سے واپسی پر نبی کریم ﷺ سے جو بھی عذر پیش کیا آپ نے قبول فرما کر ان کے معامل کو اللہ کے سپرد فرما دیا اور ان کے حالات اور بیان کی مزید تصدیق نہیں فرمائی لیکن بعض وہ مخلص صحابہ کرام جو کسی سستی یا غفلت کی بنا پر آپ کے ساتھ نہ جاسکے اپنی غلطی کا اعتراف کرلیا لیکن محض وقتی مفاد اور حضور اکرم ﷺ کی نگاہوں میں بہتر بننے کیلئے انہوں نے جھوٹ نہیں بولا۔ بیشک سچ بولنے کی وجہ سے ان کو سخت تکلیفیں اٹھانا پڑیں (جس کا تفصیل سے ذکر گزشتہ آیات میں کردیا گیا ہے لیکن ان کو اس کا سب سے بڑا انعام یہ ملا کہ قرآن کریم میں باقاعدہ ان کی معافی کا اعلان فرمایا گیا اور ان کے ذکر کو قیامت تک قرآن کریم میں محفوظ کردیا گیا۔ قیامت تک قرآن کریم پڑھا جاتا رہے گا اور ان صحابہ کرام کا ذکر بھی زندہ جاوید رہے گا۔ ان آیات میں اللہ تعالیٰ نے سچ بولنے ، سچ پر قائم رہنے والے صحابہ کرام کو ایک مثال بناتے ہوئے اس پر چلنے کا حکم فرمایا ہے اور بتا دیا گیا ہے کہ تقویٰ ، سچائی اور اللہ کی راہ میں تکلیفیں اٹھانا انسان کو نہ صرف اجر وثواب اور اس کے انعامات کا مستحق بنا دیتا ہے بلکہ ان لوگوں کی زندگیاں دوسروں کے لئے ایک خوبصورت مثال بن جایا کرتی ہیں۔ ان آیات میں ان صحابہ کرام کی زندگی کو ایک خوبصورت مثال بناتے ہوئے اللہ تعالیٰ نے صاف صاف فرما دیا کہ سچ بولنا اتنی بڑی نیکی ہے کہ اگر انسان اپنی غفلت اور سستی میں کوئی لغزش بھی کر بیٹھتا ہے تو اس کا سچ اس کو زندہ جاوید بنا دیتا ہے۔ اگر حضرت کعب بن مالک حضرت مرارہ بن ربیع اور حضرت ہلال بن امیہ جن کا ذکر گزشتہ آیات میں کر کے ان کی معافی کا اعلان کیا گیا ہے۔ سچ نہ بولتے بلکہ خدانخواستہ منافقین کی طرح بہانے بنا کر اپنی جان چھڑا لیتے تو ان کی معافی کا ذکر قرآن مجید میں نہ ہوتا۔ اس لئے کہا گیا ہے کہ ” سچ انسان کو نجات دیتا ہے اور جھوٹ انسان کو ہلاک کرتا ہے۔ “ بخاری و مسلم میں حضرت عبداللہ مسعود نے بیان کیا ہے کہ رسول اللہ ﷺ نے ارشاد فرمایا کہ سچائی کی عادت اختیار کرو کیونکہ سچ بولنے سے نیکی کی توفیق ملتی ہے اور نیکی اس کو جنت تک پہنچا دیتی ہے۔ آدمی سچ بولتا ہے اور کوشش کر کے سے سچ بولنے کے موقعے تلاش کرتا ہے یہاں تک کہ وہ اللہ کی بارگاہ میں صادق (سچ بولنے والا) کے نام سے مشہور ہوجاتا ہے۔ اس کے برخلاف جھوٹ سے بچتے رہو کیونکہ جھوٹ انسان میں فسق (گناہ) کا جذبہ پیدا کرتا ہے اور اس کا فسق اس کو جہنم تک پہنچا دیتا ہے۔ انسان جھوٹ بولتا ہے اور کوئی موقع ایسا نہیں چھوڑتا کہ جس میں جھوٹ نہ بولے یہاں تک کہ وہ اللہ کی بار گاہ میں کذاب (جھوٹا) کا لقب حاصل کرلیتا ہے۔ اس حدیث سے معلوم ہوا کہ سچ بولنے سے نہ صرف نیکی اور بھلائی کی توفیق عطا کی جاتی ہے بلکہ انسان کو اللہ کی نظر میں محبوب اور جنت کا حق دار بنا دیتا ہے اس کے برخلاف جھوٹ بولنے والے کو نہ صرف گناہوں پر جرأت ہوتی ہے بلکہ وہ اللہ کی نظر میں برا اور جہنم کی ابدی آگ کا مستحق بن جاتا ہے اسی لئے سورة انعام میں ظالموں اور فاسقوں کی صحبت سے بچنے اور پاس بیٹھنے سے انسان کو نصیحت ملتی ہے۔ اسی لئے فرمایا کہ نیک لوگوں کی صحبت اختیار کرو تاکہ تمہیں تقویٰ اور پرہیز گاری کا اعلیٰ مقام حاصل ہو سکے۔ ان آیات میں دوسری بات یہ ارشاد فرمائی گئی ہے کہ جب اللہ کی راہ میں نکلنے والوں اور تکلیفیں اٹھانے والوں کا اجر وثواب بہت زیادہ ہے تو ایک مومن کی کسی طرح کی سستی کاہلی اور غفلت مناسب نہیں ہے خواہ ان کو شہری زندگی حاصل ہو یا دیہاتی جو بھی اللہ کی راہ میں جہاد کرے گا اور اس راستے کی سختیوں کو برداشت کرے گا وہ یہ نہ سمجھے کہ اس کی محنت ضائع ہوگئی بلکہ اللہ تعالیٰ کے ہاں اسی کا ایک عمل اور کام لکھا جا رہا ہے۔ غزوہ تبوک کے موقع پر ہی ایک واقعہ احادیث میں لکھا گیا ہے کہ انسان کو کس طرح بھلائی کی توفیق ملتی ہے اور وہ نوازا جاتا ہے۔ ابو خیثمہ حضور اکرم ﷺ کے ایک صحابی ہیں یہ بھی ان لوگوں میں سے تھے جو کسی غفلت یا سستی کی وجہ سے پیچھے رہ گئے تھے۔ حضور اکرم ﷺ جب غزوہ تبوک کے لئے روانہ ہوگئے تو وہ ایک دن اپنے خوبصورت باغ میں گئے وہاں خوب گھنا سایہ تھا۔ ان کی بیوی بھی موجود تھیں۔ انہوں نے پانی چھڑک کر زمین کو خوب ٹھنڈا کرلیا۔ چٹائی بچھا کر تازہ کھجور کے خوشے سامنے رکھے ، ٹھنڈا ٹھنڈا پانی رکھ کر ابھی کھانا ہی شروع کیا تھا کہ اچانک ان کے دل و دماغ میں ایک بجلی سی کوند گئی اور ان کے دل میں یہ خیال آیا کہ کتنے افسوس کا مقام ہے کہ میں تو یہاں عیش و آرام سے کھانے پینے میں لگا ہوا ہوں اور اللہ کے پیارے رسول ﷺ سخت گرمی، لو اور تشنگی کے عالم میں کوہ بیاباں طے کر رہے ہیں۔ کہتے ہیں کہ اس خیال کے آتے ہی میں نے سواری منگوائی ، تلوار ہاتھ میں لی نیزہ سنبھالا اور اونٹنی کو دوڑاتا ہوا ریت کے ٹیلے اور پہاڑوں سے بڑی تیزی کے ساتھ حضور اکرم ﷺ کے لشکر کے پاس پہنچ گیا حضور اکرم ﷺ نے مجھے پہچان لیا اور میں مجاہدین کے ساتھ شریک جہاد ہوگیا۔ شاید یہ آیات حضرت ابو خیثمہ صحابی رسول ﷺ یا ان جیسے لوگوں کے متعلق نازل ہوئی ہوں واقعی صحابہ کرام کی کتنی بڑی شان ہے کہ ان کی ہر قربانی اور ادا کو بھی اللہ تعالیٰ نے قیامت تک کے لئے محفوظ فرما دیا اور قرآن کریم نے بتا دیا کہ جو لوگ اللہ کی راہ میں ہر طرح کی تکلیفیں بردشات کرتے ہیں وہ زندہ جاوید ہوجایا کرتے ہیں۔
Top