Baseerat-e-Quran - At-Tawba : 50
اِنْ تُصِبْكَ حَسَنَةٌ تَسُؤْهُمْ١ۚ وَ اِنْ تُصِبْكَ مُصِیْبَةٌ یَّقُوْلُوْا قَدْ اَخَذْنَاۤ اَمْرَنَا مِنْ قَبْلُ وَ یَتَوَلَّوْا وَّ هُمْ فَرِحُوْنَ
اِنْ : اگر تُصِبْكَ : تمہیں پہنچے حَسَنَةٌ : کوئی بھلائی تَسُؤْهُمْ : انہیں بری لگے وَاِنْ : اور اگر تُصِبْكَ : تمہیں پہنچے مُصِيْبَةٌ : کوئی مصیبت يَّقُوْلُوْا : تو وہ کہیں قَدْ اَخَذْنَآ : ہم نے پکڑ لیا (سنبھال لیا) تھا اَمْرَنَا : اپنا کام مِنْ قَبْلُ : اس سے پہلے وَيَتَوَلَّوْا : اور وہ لوٹ جاتے ہیں وَّهُمْ : اور وہ فَرِحُوْنَ : خوشیاں مناتے
اگر تمہیں کوئی بھلائی پہنچتی ہے تو انہیں وہ بری لگتی ہے اور اگر تمہیں مصیبت پہنچ جائے تو خوشیوں کے ساتھ یہ کہہ کر پلٹتے ہیں کہ ہم نے تو اپنا معاملہ پہلے ہی ٹھیک کرلیا تھا۔
لغات القرآن آیت نمبر 50 تا 52 تسوھم (ان کو بری لگتی ہے) اخذنا (ہم نے لے لیا) امرنا (اپنا اختیار، اپنا اکم) فرحون (وہ خوش ہو رہے ہیں ) لن یصیبنا (ہمیں ہرگز نہ پہنچے گی) مولنا (ہمارا مالک) احدی الحسنین (دو بھلائیوں میں سے ایک) تشریح : آیت نمبر 50 تا 52 ان آیات میں منافقین کی ایک اور عادت اور کم ظرفی کے متعلق ارشاد فرمایا گیا ہے۔ یہ منافقین بظاہر تو مسلمان بنے ہوئے تھے لیکن جب کوئی فتح یا کامیابی کی اطلاع آتی تو انہیں دکھ ہوتا تھا اور جب مسلمانوں کو کسی طرح کا نقصان پہنچتا تو خوشی سے دیوانے ہوجاتے اور اپنی اس دلی خوشی کو دباتے ہوئے کہتے کہ ہمیں تو پہلے ہی معلوم تھا کہ ایسا ہوگا یا ہمیں تو پہلے ہی یہ خطرہ معلوم ہو رہا تھا کہ ایسا نقصان پہنچے گا اس لئے ہم شریک نہیں ہوئے اور ہم نے اپنے آپ کو اس نقصان سے بچا لیا۔ یہ کہہ کر وہ خوش خوش اپنے گھر چلے جاتے ہیں۔ اس کا جواب اللہ تعالیٰ نے اپنے نبی ﷺ اور اہل ایمان کے ذریعہ یہ دلوایا ہے کہ ان سے کہہ دو کہ ہمارا مالک تو اللہ ہے اس نے ہمارے لئے مقدر فرما دیا ہے۔ یہ کامیابی، ناکامی فتح و شکست سب اللہ کی طرف سے ہے۔ اہل ایمان کو یہ اعتماد دیا گیا کہ اگر بظاہر اس دنیا میں ناکامی ہوجائے تو کیا ہوا آخرت کی کامیابی تو یقینی ہے۔ ان آیات میں اہل ایمان کو دو باتوں کی طرف خصوصی طور پر متوجہ کیا گیا ہے ایک تو یہ کہ اللہ نے ہمارے لئے جو کچھ مقدر کردیا ہے وہ مل کر رہے گا اس کو دنیا کی کوئی طاقت روک نہیں سکتی اور وہ جو کچھ نہ دینا چاہے ساری دنیا مل کر بھی اس کو دلوا نہیں سکتی۔ دوسری بات یہ ہے کہ اللہ پر ہی توکل اور بھروسہ کیا جائے۔ لیکن توکل کے یہ معنی ہرگز نہیں ہیں کہ آدمی، کاہلی، غفلت، بےتدبیری میں مبتلا ہوجائے اور ہاتھ پر ہاتھ دھر کر بیٹھ جائے اور یہ کہنے لگے کہ بس جو تقدیر میں ہے وہ مل کر رہے گا بلکہ توکل کے معنی یہ ہیں کہ انسان اپنی پوری تیاری کرے، تدبیر میں کمی نہ کرے پھر اللہ کار سازی پر مکمل اعتماد کر کے آگے بڑھے۔ اس کے بعد جو بھی نتیجہ سامنے آئے اس کو تقدیر کا فیصلہ سمجھ کر قبول کرلے۔
Top