Baseerat-e-Quran - At-Tawba : 67
اَلْمُنٰفِقُوْنَ وَ الْمُنٰفِقٰتُ بَعْضُهُمْ مِّنْۢ بَعْضٍ١ۘ یَاْمُرُوْنَ بِالْمُنْكَرِ وَ یَنْهَوْنَ عَنِ الْمَعْرُوْفِ وَ یَقْبِضُوْنَ اَیْدِیَهُمْ١ؕ نَسُوا اللّٰهَ فَنَسِیَهُمْ١ؕ اِنَّ الْمُنٰفِقِیْنَ هُمُ الْفٰسِقُوْنَ
اَلْمُنٰفِقُوْنَ : منافق مرد (جمع) وَالْمُنٰفِقٰتُ : اور منافق عورتیں بَعْضُهُمْ : ان میں سے بعض مِّنْ : سے بَعْضٍ : بعض کے يَاْمُرُوْنَ : وہ حکم دیتے ہیں بِالْمُنْكَرِ : برائی کا وَيَنْهَوْنَ : اور منع کرتے ہیں عَنِ : سے لْمَعْرُوْفِ : نیکی وَيَقْبِضُوْنَ : اور بند رکھتے ہیں اَيْدِيَهُمْ : اپنے ہاتھ نَسُوا : وہ بھول بیٹھے اللّٰهَ : اللہ فَنَسِيَهُمْ : تو اس نے انہیں بھلا دیا اِنَّ : بیشک الْمُنٰفِقِيْنَ : منافق (جمع) هُمُ : وہ (ہی) الْفٰسِقُوْنَ : نافرمان (جمع)
منافق مرد اور منافق عورتیں آپس میں ایک دوسرے کے ساتھ ہی۔ برائی کا حکم دیتے اور نیکیوں سے روکتے ہیں اور اپنے ہاتھوں کو (اللہ کی راہ میں) خرچ کرنے سے روکتے ہیں ۔ وہ اللہ کو بھول گئے اللہ نے ان کو بھلا دیا۔ بیشک منافقین بہت نافرمان ہیں۔
لغات القرآن آیت نمبر 76 تا 70 یامرون (وہ حکم دیتے ہیں، سکھاتے ہیں) المنکر (بری بات) ینھون (وہ روکتے ہیں) المعروف (نیکیوں سے) نیکیاں یقضون (وہ روکتے ہیں) ایدیھم اپنے ہاتھوں کو نسو اللہ (انہوں نے اللہ کو بھلا دیا ) نسیھم (اس نے ان کو بھلا دیا) عذاب مقیم (ہمیشہ کا عذاب) اشد (زیادہ شدید) استمتعوا (انہوں نے فائدہ حاصل کیا) استمتعتم (تم نے فائدہ اٹھا لیا) خلاق (حصہ) خصتم (تم گھسے) کالذی (جیسا کہ وہ) الم یات (کیا نہیں آئی) نبا (خبر، اطلاع) الموتفکت (الٹی ہوئی بستیاں) تشریح : آیت نمبر 67 تا 70 منافقین کی تمام بری حرکات کا مسلسل ذکر کیا جا رہا ہے آیت نمبر 67 سے آیت نمبر 72 تک اس بات کو تفصیل سے مقابلہ کر کے بیان کیا گیا ہے کہ مومن اور منافق کی صحیح پہچان اور مقاصد کیا کیا ہیں سب سے پہلے ان آیات میں منافقین کی چند علامتیں بتائی گئی ہیں۔ 1) پہلی علامت تو یہ ہے کہ منافق مرد اور منافق عورتیں نفسیاتی اور ذہنی طور پر ایک ہی ہیں۔ 2) جہاں کہیں برائی ہوتی دیکھیں گے وہ دوڑ کر پہنچ جائیں گے اور اگر کہیں نیکی کا کام ہو رہا ہوگا تو اس میں رکاوٹ ڈالنے کی بھرپور کوششوں میں لگ جائیں گے۔ اپنی طرف سے کوئی دقیقہ اٹھا نہ رکھیں گے۔ (3) تیسری علامت یہ ہے کہ وہ ہر نیک کام سے اپنے ہاتھوں کو باندھے رکھیں گے کہ ان کی جان چلی جائے لیکن ایک پیسہ بھی کسی نیک کام میں خرچ نہ ہونے پائے۔ کنجوسی ان کا مزاج ہوتا ہے۔ 4) چوتھی پہچان یہ ہے کہ وہ اللہ کے احکامات کو بھلا بیٹھے ہیں فرمایا گیا کہ اگر وہ اپنی من مانی میں لگے ہوئے ہیں تو اللہ کی ذات بےنیاز ہے۔ اگر انہوں نے ہمیں بھلا دیا تو ہم بھی ان کو بھلا دیتے ہیں فرمایا کہ درحقیقت یہ نافرمان لوگ ہیں اور یہی ان کا مزاج بن کر رہ گیا ہے فرمایا کہ ان جیسے منافقین کیلئے اور کفار کے لئے اللہ نے جہنم کی آگ تیار کر رکھی ہے۔ جس میں نہ صرف یہ ہمیشہ رہیں گے بلکہ ان پر اللہ کی لعنت ہوگی اور عذاب ان کے سروں پر کھڑا رہے گا۔ فرمایا کہ یہ لوگ ان گذری ہوئی قوموں کی طرح ہیں جنہوں نے طاقت و قوت، مال اور اولاد کی کثرت کے گھمنڈ میں مبتلا ہو کر منافقت اور کفر و شرک میں انتہا کردی تھی لیکن انجام کیا ہوا ؟ انجام یہ ہوا کہ دنیا اور آخرت میں ان کے تمام اعمال برباد ہو کر رہ گئے اور سوائے نقصان کے اور کچھ ہاتھ نہیں آیا۔ فرمایا کہ انہوں نے اپنے کرو شرک اور نفاق سے وقتی فائدے خوب اٹھائے تم بھی اٹھا رہے ہو۔ وہ کفر و شرک کی وادیوں میں بھٹکتے رہے تم بھی بھٹکتے رہو لیکن تمہیں ان کا انجام سامنے رکھنا چاہئے کہ آج وہ اپنے وقتی مفادات ، بلڈنگوں، مال و دولت اور اولاد کو اپنے ساتھ لے کر نہیں گئے بلکہ وہ سب اسی دنیا میں چھوڑ کر گئے ہیں۔ تم بھی سب کچھ اسی دنیا میں چھوڑ کر چلے جائو گے۔ قوم نوح ، قوم عاد، قوم ثمود، قوم ابراہیم، مدینے والے اور ان بستیوں والے جن کی بستیاں ان پر الٹ دی گئی تھیں ان کے پاس اللہ کے رسول کھلی ہوئی نشانیاں لے کر آئے لیکن جب انہوں نے اللہ اور اس کے رسول ﷺ کی نافرمانی کی تو وہی ان کی دولت اور اولادیں ان کے لئے عذاب کا سبب بن گئیں۔ آخر میں فرمایا کہ اللہ کسی پر ظلم اور زیادتی نہیں کرتا وہ تو اپنے بندوں پر انتہائی مہربان ہے لیکن انسان اپنی بدعملیوں میں مبتلا ہو کر اللہ کو بھول جاتا ہے اور اپنے آپ پر وہ خود ظلم اور زیادتی کرتا ہے اور اپنے لئے گڑھے کو کھود لیتا ہے۔
Top