Bayan-ul-Quran - Hud : 24
مَثَلُ الْفَرِیْقَیْنِ كَالْاَعْمٰى وَ الْاَصَمِّ وَ الْبَصِیْرِ وَ السَّمِیْعِ١ؕ هَلْ یَسْتَوِیٰنِ مَثَلًا١ؕ اَفَلَا تَذَكَّرُوْنَ۠   ۧ
مَثَلُ : مثال الْفَرِيْقَيْنِ : دونوں فریق كَالْاَعْمٰى : جیسے اندھا وَالْاَصَمِّ : اور بہرا وَالْبَصِيْرِ : اور دیکھتا وَالسَّمِيْعِ : اور سنتا هَلْ يَسْتَوِيٰنِ : کیا دونوں برابر ہیں مَثَلًا : مثال (حالت) میں اَفَلَا تَذَكَّرُوْنَ : کیا تم غور نہیں کرتے
ان دونوں گروہوں کی مثال ایسے ہے جیسے ایک شخص اندھا اور بہرہ ہو اور دوسرا دیکھنے اور سننے والا کیا یہ دونوں برابر ہیں مثال کے اعتبار سے ؟ تو کیا تم نصیحت اخذ نہیں کرتے
هَلْ يَسْتَوِيٰنِ مَثَلًا ۭ اَفَلَا تَذَكَّرُوْنَ بھلا دونوں کا حال یکساں ہوسکتا ہے ؟ کیا تم اس مثال سے کوئی سبق حاصل نہیں کرتے ؟ اب اگلے چھ رکوع انباء الرسل پر مشتمل ہیں۔ ان میں انہی چھ رسولوں اور ان کی قوموں کے حالات بیان ہوئے ہیں جن کا ذکر ہم سورة الاعراف میں بھی پڑھ آئے ہیں۔ یعنی حضرت نوح ‘ حضرت ہود ‘ حضرت صالح ‘ حضرت شعیب ‘ حضرت لوط اور حضرت موسیٰ علیٰ نبینا وعلیہم الصلوٰۃ والسلام۔ یہ چھ رسول ہیں جن کا ذکر قرآن حکیم میں بہت تکرار کے ساتھ آیا ہے۔ اس تکرار کی وجہ یہ ہے کہ قرآن کے اولین مخاطب اہل عرب ان سب رسولوں اور ان کی قوموں کے حالات سے بخوبی واقف تھے۔ جس خطے میں یہ رسول اپنے اپنے زمانے میں مبعوث ہوئے اس کے بارے میں کچھ تفصیل ہم سورة الاعراف میں پڑھ آئے ہیں۔ یہاں ان میں سے چیدہ چیدہ معلومات ذہن میں پھر سے تازہ کرلیں۔ اگلے صفحے پر جو نقشہ دیا گیا ہے یہ گویا ”ارض القرآن“ کا نقشہ ہے۔ قرآن مجید میں جن رسولوں کے حالات کا تذکرہ ہے وہ سب کے سب اسی خطے کے اندر مبعوث کیے گئے۔ نقشے میں جزیرہ نمائے عرب کے دائیں طرف خلیج فارس اور بائیں طرف بحیرۂ قلزم بحیرۂ احمر ہے ‘ جو اوپر جا کر خلیج عقبہ اور خلیج سویز میں تقسیم ہوجاتا ہے۔ نقشے پر اگر خلیج فارس سے اوپر سیدھی لکیر کھینچی جائے اور خلیج عقبہ کے شمالی کونے سے بھی ایک لکیر کھینچی جائے تو جہاں یہ دونوں لکیریں آپس میں ملیں گی ‘ یہ وہ علاقہ ہے جہاں پر حضرت نوح کی قوم آباد تھی۔ یہیں سے اوپر شمال کی جانب ارارات کا پہاڑی سلسلہ ہے ‘ جس میں کوہ جودی پر آپ کی کشتی لنگر انداز ہوئی تھی۔ اس علاقے میں سیلاب کی صورت میں حضرت نوح کی قوم پر عذاب آیا ‘ جس سے پوری قوم ہلاک ہوگئی۔ اس وقت تک پوری نسل انسانی بس یہیں پر آباد تھی ‘ چناچہ سیلاب کے بعد نسل انسانی حضرت نوح کی اولاد ہی سے آگے چلی۔ حضرت نوح کے ایک بیٹے کا نام سام تھا ‘ وہ اپنی اولاد کے ساتھ عراق کے علاقے میں آباد ہوگئے۔ اس علاقے میں ان کی نسل سے بہت سی قومیں پیداہوئیں۔ انہیں میں سے ایک قوم اپنے مشہور سردار ”عاد“ کے نام کی وجہ سے مشہور ہوئی۔ قوم عاد جزیرہ نمائے عرب کے جنوب میں احقاف کے علاقے میں آباد تھی۔ اس قوم میں جب شرک عام ہوگیا تو اللہ تعالیٰ نے ان کی اصلاح کے لیے بہت سے نبی بھیجے۔ ان انبیاء کے آخر میں حضرت ہود ان کی طرف رسول مبعوث ہو کر آئے۔ آپ کی دعوت کو رد کر کے جب یہ قوم بھی عذاب الٰہی کی مستحق ہوگئی تو حضرت ہود اپنے اہل ایمان ساتھیوں کو ساتھ لے کر عرب کے وسطی علاقے حجر کی طرف ہجرت کر گئے۔ یہاں پھر ان لوگوں کی نسل آگے بڑھی۔ ان میں سے قوم ثمود نے خصوصی طور پر بہت ترقی کی۔ اس قوم کا نام بھی ثمود نامی کسی بڑی شخصیت کے نام پر مشہور ہوا۔ یہ لوگ فن تعمیر کے بہت ماہر تھے۔ چناچہ انہوں نے میدانی علاقوں میں بھی عالی شان محلات تعمیر کیے اور Granite Rocks پر مشتمل انتہائی سخت پہاڑوں کو تراش کر خوبصورت مکانات بھی بنائے۔ اس قوم کی طرف حضرت صالح مبعوث کیے گئے۔ یہ تینوں اقوام قوم نوح قوم عاد اور قوم ثمود حضرت ابراہیم کے زمانے سے پہلے کی ہیں۔ دوسری طرف عراق میں جو سامئ النسل لوگ آباد تھے ان میں حضرت ابراہیم مبعوث ہوئے۔ آپ کا تذکرہ قرآن میں کہیں بھی ”انباء الرسل“ کے انداز میں نہیں کیا گیا۔ یہاں سورة ہود میں بھی آپ کا ذکر ”قصص النبیین“ کی طرز پر آیا ہے۔ پھر حضرت ابراہیم نے عراق سے ہجرت کی اور بہت بڑا صحرائی علاقہ عبور کر کے شام چلے گئے۔ وہاں آپ نے فلسطین کے علاقے میں اپنے بیٹے حضرت اسحاق کو آباد کیا جبکہ اس سے پہلے اپنے بڑے بیٹے حضرت اسماعیل کو آپ مکہ میں آباد کرچکے تھے۔ حضرت لوط آپ کے بھتیجے تھے۔ شام کی طرف ہجرت کرتے ہوئے وہ بھی آپ کے ساتھ تھے۔ حضرت لوط کو اللہ تعالیٰ نے رسالت سے نواز کر عامورہ اور سدوم کے شہروں کی طرف مبعوث فرمایا۔ یہ شہر بحیرۂ مردار Dead Sea کے کنارے پر آباد تھے۔ لہٰذا قوم ثمود کے بعد انباء الرسل کے انداز میں حضرت لوط ہی کا ذکر آئے گا۔ حضرت ابراہیم کی جو اولاد آپ کی تیسری بیوی قطورہ سے ہوئی وہ خلیج عقبہ کے مشرقی علاقے میں آباد ہوئی۔ اپنے کسی مشہور سردار کے نام پر اس قوم اور اس علاقے کا نام ”مدین“ مشہور ہوا۔ اس قوم کی طرف حضرت شعیب کو مبعوث کیا گیا۔ انباء الرسل کے اس سلسلے میں حضرت شعیب کے بعد حضرت موسیٰ کا ذکر آتا ہے۔ حضرت موسیٰ کو مصر میں مبعوث کیا گیا جو جزیرہ نمائے عرب سے باہر جزیرہ نمائے سینا Senai Peninsula کے دوسری طرف واقع ہے۔ آپ کی بعثت بنی اسرائیل میں ہوئی تھی ‘ جو حضرت یوسف کی وساطت سے فلسطین سے ہجرت کر کے مصر میں آباد ہوئے تھے۔ سورۂ یوسف میں اس ہجرت کی پوری تفصیل موجود ہے۔ بنی نوع انسان کی ہدایت کے لیے اللہ تعالیٰ نے بہت سے انبیاء و رسل دنیا کے مختلف علاقوں میں مبعوث فرمائے۔ ان تمام پیغمبروں کی تاریخ بیان کرنا قرآن کا موضوع نہیں ہے۔ قرآن تو کتاب ہدایت ہے اور انبیاء ورسل کے واقعات بھی ہدایت کے لیے ہی بیان کیے جاتے ہیں۔ اس ہدایت کے تمام پہلو کسی ایک رسول کے قصے میں بھی موجود ہوتے ہیں مگر مذکورہ چھ رسولوں کا ذکر بار بار اس لیے قرآن میں آیا ہے کہ ان کے ناموں سے اہل عرب واقف تھے اور ان کی حکایات و روایات میں بھی ان کے تذکرے موجود تھے۔
Top