Home
Quran
Recite by Surah
Recite by Ruku
Translation
Maududi - Urdu
Jalandhary - Urdu
Junagarhi - Urdu
Taqi Usmani - Urdu
Saheeh Int - English
Maududi - English
Tafseer
Tafseer Ibn-e-Kaseer
Tafheem-ul-Quran
Maarif-ul-Quran
Tafseer-e-Usmani
Aasan Quran
Ahsan-ul-Bayan
Tibyan-ul-Quran
Tafseer-Ibne-Abbas
Tadabbur-e-Quran
Show All Tafaseer
Word by Word
Nazar Ahmed - Surah
Nazar Ahmed - Ayah
Farhat Hashmi - Surah
Farhat Hashmi - Ayah
Word by Word English
Hadith
Sahih Bukhari
Sahih Muslim
Sunan Abu Dawood
Sunan An-Nasai
Sunan At-Tirmadhi
Sunan Ibne-Majah
Mishkaat Shareef
Mauwatta Imam Malik
Musnad Imam Ahmad
Maarif-ul-Hadith
Riyad us Saaliheen
Android Apps
IslamOne
QuranOne
Tafseer Ibne-Kaseer
Maariful Quran
Tafheem-ul-Quran
Quran Urdu Translations
Quran Word by Word
Sahih Bukhari
Sahih Muslim
Mishkaat Shareef
More Apps...
More
Seerat-un-Nabi ﷺ
Fiqhi Masail
Masnoon Azkaar
Change Font Size
About Us
View Ayah In
Navigate
Surah
1 Al-Faatiha
2 Al-Baqara
3 Aal-i-Imraan
4 An-Nisaa
5 Al-Maaida
6 Al-An'aam
7 Al-A'raaf
8 Al-Anfaal
9 At-Tawba
10 Yunus
11 Hud
12 Yusuf
13 Ar-Ra'd
14 Ibrahim
15 Al-Hijr
16 An-Nahl
17 Al-Israa
18 Al-Kahf
19 Maryam
20 Taa-Haa
21 Al-Anbiyaa
22 Al-Hajj
23 Al-Muminoon
24 An-Noor
25 Al-Furqaan
26 Ash-Shu'araa
27 An-Naml
28 Al-Qasas
29 Al-Ankaboot
30 Ar-Room
31 Luqman
32 As-Sajda
33 Al-Ahzaab
34 Saba
35 Faatir
36 Yaseen
37 As-Saaffaat
38 Saad
39 Az-Zumar
40 Al-Ghaafir
41 Fussilat
42 Ash-Shura
43 Az-Zukhruf
44 Ad-Dukhaan
45 Al-Jaathiya
46 Al-Ahqaf
47 Muhammad
48 Al-Fath
49 Al-Hujuraat
50 Qaaf
51 Adh-Dhaariyat
52 At-Tur
53 An-Najm
54 Al-Qamar
55 Ar-Rahmaan
56 Al-Waaqia
57 Al-Hadid
58 Al-Mujaadila
59 Al-Hashr
60 Al-Mumtahana
61 As-Saff
62 Al-Jumu'a
63 Al-Munaafiqoon
64 At-Taghaabun
65 At-Talaaq
66 At-Tahrim
67 Al-Mulk
68 Al-Qalam
69 Al-Haaqqa
70 Al-Ma'aarij
71 Nooh
72 Al-Jinn
73 Al-Muzzammil
74 Al-Muddaththir
75 Al-Qiyaama
76 Al-Insaan
77 Al-Mursalaat
78 An-Naba
79 An-Naazi'aat
80 Abasa
81 At-Takwir
82 Al-Infitaar
83 Al-Mutaffifin
84 Al-Inshiqaaq
85 Al-Burooj
86 At-Taariq
87 Al-A'laa
88 Al-Ghaashiya
89 Al-Fajr
90 Al-Balad
91 Ash-Shams
92 Al-Lail
93 Ad-Dhuhaa
94 Ash-Sharh
95 At-Tin
96 Al-Alaq
97 Al-Qadr
98 Al-Bayyina
99 Az-Zalzala
100 Al-Aadiyaat
101 Al-Qaari'a
102 At-Takaathur
103 Al-Asr
104 Al-Humaza
105 Al-Fil
106 Quraish
107 Al-Maa'un
108 Al-Kawthar
109 Al-Kaafiroon
110 An-Nasr
111 Al-Masad
112 Al-Ikhlaas
113 Al-Falaq
114 An-Naas
Ayah
1
2
3
4
5
6
7
8
9
10
11
12
13
14
15
16
17
18
19
20
21
22
23
24
25
26
27
28
29
30
31
32
33
34
35
36
37
38
39
40
41
42
43
44
45
46
47
48
49
50
51
52
53
54
55
56
57
58
59
60
61
62
63
64
65
66
67
68
69
70
71
72
73
74
75
76
77
78
79
80
81
82
83
84
85
86
87
88
89
90
91
92
93
94
95
96
97
98
99
100
101
102
103
104
105
106
107
108
109
110
111
112
113
114
115
116
117
118
119
120
121
122
123
124
125
126
127
128
Get Android App
Tafaseer Collection
تفسیر ابنِ کثیر
اردو ترجمہ: مولانا محمد جوناگڑہی
تفہیم القرآن
سید ابو الاعلیٰ مودودی
معارف القرآن
مفتی محمد شفیع
تدبرِ قرآن
مولانا امین احسن اصلاحی
احسن البیان
مولانا صلاح الدین یوسف
آسان قرآن
مفتی محمد تقی عثمانی
فی ظلال القرآن
سید قطب
تفسیرِ عثمانی
مولانا شبیر احمد عثمانی
تفسیر بیان القرآن
ڈاکٹر اسرار احمد
تیسیر القرآن
مولانا عبد الرحمٰن کیلانی
تفسیرِ ماجدی
مولانا عبد الماجد دریابادی
تفسیرِ جلالین
امام جلال الدین السیوطی
تفسیرِ مظہری
قاضی ثنا اللہ پانی پتی
تفسیر ابن عباس
اردو ترجمہ: حافظ محمد سعید احمد عاطف
تفسیر القرآن الکریم
مولانا عبد السلام بھٹوی
تفسیر تبیان القرآن
مولانا غلام رسول سعیدی
تفسیر القرطبی
ابو عبدالله القرطبي
تفسیر درِ منثور
امام جلال الدین السیوطی
تفسیر مطالعہ قرآن
پروفیسر حافظ احمد یار
تفسیر انوار البیان
مولانا عاشق الٰہی مدنی
معارف القرآن
مولانا محمد ادریس کاندھلوی
جواھر القرآن
مولانا غلام اللہ خان
معالم العرفان
مولانا عبدالحمید سواتی
مفردات القرآن
اردو ترجمہ: مولانا عبدہ فیروزپوری
تفسیرِ حقانی
مولانا محمد عبدالحق حقانی
روح القرآن
ڈاکٹر محمد اسلم صدیقی
فہم القرآن
میاں محمد جمیل
مدارک التنزیل
اردو ترجمہ: فتح محمد جالندھری
تفسیرِ بغوی
حسین بن مسعود البغوی
احسن التفاسیر
حافظ محمد سید احمد حسن
تفسیرِ سعدی
عبدالرحمٰن ابن ناصر السعدی
احکام القرآن
امام ابوبکر الجصاص
تفسیرِ مدنی
مولانا اسحاق مدنی
مفہوم القرآن
محترمہ رفعت اعجاز
اسرار التنزیل
مولانا محمد اکرم اعوان
اشرف الحواشی
شیخ محمد عبدالفلاح
انوار البیان
محمد علی پی سی ایس
بصیرتِ قرآن
مولانا محمد آصف قاسمی
مظہر القرآن
شاہ محمد مظہر اللہ دہلوی
تفسیر الکتاب
ڈاکٹر محمد عثمان
سراج البیان
علامہ محمد حنیف ندوی
کشف الرحمٰن
مولانا احمد سعید دہلوی
بیان القرآن
مولانا اشرف علی تھانوی
عروۃ الوثقٰی
علامہ عبدالکریم اسری
معارف القرآن انگلش
مفتی محمد شفیع
تفہیم القرآن انگلش
سید ابو الاعلیٰ مودودی
Bayan-ul-Quran - An-Nahl : 40
اِنَّمَا قَوْلُنَا لِشَیْءٍ اِذَاۤ اَرَدْنٰهُ اَنْ نَّقُوْلَ لَهٗ كُنْ فَیَكُوْنُ۠ ۧ
اِنَّمَا
: اس کے سوا نہیں
قَوْلُنَا
: ہمارا فرمانا
لِشَيْءٍ
: کسی چیز کو
اِذَآ اَرَدْنٰهُ
: جب ہم اس کا ارادہ کریں
اَنْ نَّقُوْلَ
: کہ ہم کہتے ہیں
لَهٗ
: اس کو
كُنْ
: ہوجا
فَيَكُوْنُ
: تو وہ ہوجاتا ہے
ہمارا قول تو کسی چیز کے بارے میں بس یہ ہوتا ہے جب ہم اس کا ارادہ کرتے ہیں کہ ہم فرماتے ہیں اسے ہوجا تو وہ ہوجاتی ہے
آیت 40 اِنَّمَا قَوْلُــنَا لِشَيْءٍ اِذَآ اَرَدْنٰهُ اَنْ نَّقُوْلَ لَهٗ كُنْ فَيَكُوْنُ اس نکتے کو اچھی طرح سمجھ لینا ضروری ہے کہ یہ حکم عالم امر کے بارے میں ہے جبکہ عالم خلق میں یوں نہیں ہوتا عالم امر اور عالم خلق کے بارے میں وضاحت اس سورة کی آیت 2 اور سورة الاعراف کی آیت 54 کے ضمن میں گزر چکی ہے۔ عالم امر میں کسی واقعے یا کسی چیز کے ظہور پذیر ہونے کے لیے اسباب وسائل اور وقت درکار نہیں بلکہ اللہ تعالیٰ ارادہ فرماکر کن فرماتے ہیں تو وہ چیز وجود میں آجاتی ہے۔ عالم خلق میں بھی کلی اختیار تو اللہ ہی کا ہے مگر اس عالم کو عام طبعی قوانین کے مطابق چلایا جاتا ہے۔ چناچہ عالم خلق میں کسی چیز کو وجود میں آنے اور مطلوبہ معیار تک پہنچنے کے لیے اسباب وسائل اور وقت کی ضرورت پیش آتی ہے۔ یہ کائنات اپنے تمام طبعی موجودات کے ساتھ عالم خلق کا اظہار ہے۔ آیت زیر نظر کے موضوع کی مناسبت سے یہاں میں کائنات کی تخلیق کے آغاز سے متعلق اپنی سوچ اور فکر کی وضاحت ضروری سمجھتا ہوں۔ کائنات کی تخلیق کے بارے میں ایک طرف تو پرانے فلسفیانہ تصورات ہیں اور دوسری طرف جدید سائنسی نظریات theories۔ فلسفیانہ تصورات کے مطابق سب سے پہلے وجود باری تعالیٰ سے عقل اوّل وجود میں آئی۔ عقلِ اوّل سے پھر فلکِ اوّل اور پھر فلکِ اوّل سے فلک ثانی وغیرہ۔ یہ مشائین کے فلسفے ہیں جو ارسطو اور اس کے شاگردوں کے نظریات کے ساتھ دنیا میں پھیلے اور ہمارے ہاں بھی بہت سے متکلمین ان سے متاثر ہوئے۔ بہر حال جدید سائنسی انکشافات کے ذریعے ان میں سے کسی بھی نظریے کی کہیں کوئی تائید و تصدیق نہیں ہوئی۔ دوسری طرف جدید فزکس کے میدان میں اعلیٰ علمی سطح پر اس سلسلے میں جتنے بھی نظریات theories ہیں ان میں ”عظیم دھماکے“ Big Bang کا تصور پایا جاتا ہے۔ اس تصور کے تحت Big Bang کے نتیجے میں ارب ہا ارب درجہ حرارت کے حامل بیشمار ذرات وجود میں آئے۔ یہ ذرات تیزی سے حرکت کرتے ہوئے مختلف forms میں اکٹھے ہوئے تو کہکشائیں galaxies وجود میں آئیں اور چھوٹے بڑے بیشمار ستاروں کا ایک جہان آباد ہوگیا۔ انہی ستاروں میں ایک ہمارا سورج بھی تھا جس کے اندر مزید ٹوٹ پھوٹ کے نتیجے میں اس کے سیارے planets وجود میں آئے۔ سورج کے ان سیاروں میں سے ایک سیارہ ہماری زمین ہے جو وقت کے ساتھ ساتھ ٹھنڈی ہوتی رہی اور بالآخر اس پر نباتاتی اور حیوانی زندگی کے لیے سازگار ماحول وجود میں آیا۔ آج کی سائنس فی الحال ”بگ بینگ“ سے آگے کوئی نظریہ قائم کرنے سے قاصر ہے۔ اس نظریے سے جو معلومات سائنس نے اخذ کی ہیں وہ ان تمام حقائق کے ساتھ مطابقت corroboration رکھتی ہیں جن کا علم اس موضوع پر ہمیں قرآن سے ملتا ہے۔ اس سے پہلے مادے کے بارے میں سائنس قانون بقائے مادہ Law of conservation of mass کی قائل تھی کہ مادہ ہمیشہ سے ہے اور ہمیشہ رہے گا مگر نئے نظریے کو اپنا کر سائنس نے نہ صرف بگ بینگ کو کائنات کا نقطہ آغاز تسلیم کرلیا ہے بلکہ یہ بھی مان لیا ہے کہ مادہ ایک خاص وقت تک کے لیے ہے اور ایک خاص وقت کے بعد ختم ہوجائے گا۔ جہاں تک کا ئنات کی تخلیق کے آغاز کے بارے میں میری اپنی سوچ کا تعلق ہے اس کا خلاصہ یہ ہے کہ اس کی تخلیق اللہ تعالیٰ کے ایک امر ”کُن“ سے ہوئی اللہ کے حکم سے نہ کہ اس کی ذات سے۔ پھر اس امر ”کن“ کا ظہور ایک خنک نور یا ٹھنڈی روشنی کی صورت میں ہوا یہ خنک نور حرف کن کا ظہور تھا نہ کہ ذات باری تعالیٰ کا۔ اس روشنی میں حرارت نہیں تھی گویا یہ مادی روشنی material light کے وجود میں آنے سے پہلے کا دور تھا۔ آج جس روشنی کو ہم دیکھتے یا پہچانتے ہیں اس میں حرارت ہوتی ہے اور اسی حرارت کی وجہ سے یہ material light ہے۔ امرِ ”کن“ سے ظہور پانے والے اس خنک نور سے پہلے مرحلے پر ملائکہ کی پیدائش ہوئی۔ جیسے کہ مسلم شریف میں حضرت عائشہ سے حدیث مروی ہے کہ اللہ تعالیٰ نے ملائکہ کو نور سے پیدا کیا۔ اسی نور سے انسانی ارواح پیدا کی گئیں اور سب سے پہلے روح محمدی پیدا کی گئی جیسا کہ حدیث میں الفاظ آئے ہیں : اَوَّلُ مَا خَلَقَ اللّٰہُ نُوْرِیْ 1 یعنی اللہ تعالیٰ نے سب سے پہلے میرا نور پیدا کیا۔ ”نُورِی“ اور ”رُوحِی“ گویا دو مترادف الفاظ ہیں کیونکہ روح کا تعلق بھی نور سے ہے۔ بہرحال یہ کائنات کی تخلیق کا مرحلہ اول ہے جس میں فرشتوں اور انسانی ارواح کی تخلیق ہوئی۔ اس کے بعد کسی مرحلے پر اس خنک نور میں کسی نوعیت کا زور دار دھماکہ explosion ہوا جس کو آج کی سائنس ”بگ بینگ“ کے نام سے پہچانتی ہے۔ اس دھماکے کے نتیجے میں حرارت کا وہ گولا وجود میں آیا ‘ جو بہت چھوٹے چھوٹے ذرات پر مشتمل تھا۔ ان ذرات کا درجہ حرارت ناقابل تصور حد تک تھا۔ یہ گویا طبعی دنیا Physical World کا نقطہ آغاز تھا۔ اسی دور میں اس آگ کی لپٹ سے ِ جنات پیدا کیے گئے اور انہی انتہائی گرم ذرات سے کہکشائیں ‘ ستارے اور سیارے وجود میں آئے۔ ان سیاروں میں سے ایک سیارہ یا کرہ ہماری زمین ہے جو ابتدا میں انتہائی گرم تھی۔ اس کے ٹھنڈا ہونے پر اس کے اندر سے بخارات نکلے جو اس کے گرد ایک ہالے کی شکل میں جمع ہوگئے۔ ان بخارات سے پانی وجود میں آیا جو ہزار ہا برس تک زمین پر بارش کی صورت میں برستا رہا۔ اس کے نتیجے میں تمام روئے زمین پر ہر طرف پانی ہی پانی پھیل گیا۔ اس وقت تک زمین پر پانی کے علاوہ اور کچھ نہیں تھا۔ یہی وہ دور تھا جس کا ذکر قرآن میں بایں الفاظ کیا گیا ہے : وَکَانَ عَرْشُہٗ عَلَی الْمَآءِ ھود : 7 ”کہ اس کا عرش اس وقت پانی پر تھا“۔ پھر زمین جب مزید ٹھنڈا ہونے پر سکڑی تو اس کی سطح پر نشیب و فراز نمودار ہوئے۔ کہیں پہاڑ وجود میں آئے تو کہیں سمندر۔ اس کے بعد نباتاتی اور حیوانی حیات کا آغاز ہو۔ اس حیات کے ارتقاء کے بلند ترین مرحلے پر انسان کی تخلیق ہوئی اور حضرت آدم کی روح ان کے وجود کو سونپی گئی۔ حضرت آدم کی تاجپوشی کا یہی واقعہ ہے جہاں سے قرآن آدم کی تخلیق کا تذکرہ کرتا ہے۔ اس لحاظ سے انسان اللہ تعالیٰ کی تخلیق کا اعلیٰ ترین شاہکار بھی ہے اور اس پوری کائنات کی تخلیق کا اصل مقصود و مطلوب بھی۔ یہاں ایک نکتہ یہ بھی سمجھ لیں کہ عالم خلق اور عالم امر بالکل الگ الگ نہیں ہیں۔ یعنی یوں نہیں کہا جاسکتا کہ یہاں تک تو عالم خلق ہے اور یہاں سے آگے عالم امر ہے۔ ایسا ہرگز نہیں ہے بلکہ یہ دونوں عالم ایک دوسرے کے ساتھ خلط ملط اور باہم گندھے ہوئے ہیں۔ مثلاً اس عالم خلق میں تمام انسانوں کی ارواح موجود ہیں ‘ جن کا تعلق عالم امر سے ہے : وَيَسْــــَٔـلُوْنَكَ عَنِ الرُّوْحِ ۭ قُلِ الرُّوْحُ مِنْ اَمْرِ رَبِّيْ بنی اسرائیل : 85 یہ آیت واضح کرتی ہے کہ روح کا تعلق عالم امر سے ہے۔ شاہ ولی اللہ دہلوی نے اپنی مشہور زمانہ کتاب ”حجۃ اللہ البالغہ“ میں لکھا ہے کہ اللہ تعالیٰ اپنے بعض نیک بندوں کی ارواح کو فرشتوں کے طبقہ اسفل میں شامل کرلیتے ہیں۔ چناچہ یہ نیک ارواح ان فرشتوں کے ساتھ سرگرم عمل رہتی ہیں جو اللہ کے احکام کی تعمیل و تنفیذ میں مصروف ہیں۔ اسی طرح فرشتے جو کہ عالم امر کی مخلوق ہیں وہ بھی یہاں عالم خلق میں ہمارے ارد گرد موجود ہیں۔ دو دو فرشتے تو ہم میں سے ہر انسان کے ساتھ بطور نگران مقرر کیے گئے ہیں۔ حضرت ابوہریرہ روایت کرتے ہیں کہ رسول اللہ نے ارشاد فرمایا : مَا اجْتَمَعَ قَوْمٌ فِیْ بَیْتٍ مِنْ بُیُوْتِ اللّٰہِ یَتْلُوْنَ کِتَاب اللّٰہِ وَیَتَدَارَسُوْنَہٗ بَیْنَھُمْ الاَّ نَزَلَتْ عَلَیْھِمُ السَّکِیْنَۃُ وَغَشِیَتْھُمُ الرَّحْمَۃُ وَحَفَّتْھُمُ الْمَلَاءِکَۃُ وَذَکَرَھُمُ اللّٰہُ فِیْمَنْ عِنْدَہٗ 1 ”اللہ کے گھروں میں سے کسی گھر میں کچھ لوگ کتاب اللہ کی تلاوت اور اس کو سمجھنے اور سمجھانے کے لیے جمع نہیں ہوتے مگر یہ کہ ان کے اوپر سکینت نازل ہوتی ہے ‘ اللہ کی رحمت انہیں ڈھانپ لیتی ہے ‘ فرشتے ان کو گھیر لیتے ہیں اور اللہ تعالیٰ اپنے مقربین ملأ اعلیٰ میں ان کا ذکر کرتا ہے۔“ اس حدیث کی رو سے درس قرآن کی اس محفل میں یقیناً فرشتے موجود ہیں ‘ وہ عالم امر کی شے ہیں ‘ ہم نہ انہیں دیکھ سکتے ہیں نہ ان سے خطاب کرسکتے ہیں۔ یہ بھی ممکن ہے کہ اہل ایمان جنات بھی موجود ہوں اور قرآن سن رہے ہوں۔ چناچہ ارواح فرشتے اور وحی تینوں کا تعلق اگرچہ عالم امر سے ہے مگر ان کا عمل دخل عالم خلق میں بھی ہے۔ اس طرح عالم خلق اور عالم امر کو بالکل الگ الگ نہیں کیا جاسکتا۔ یہاں میں مرزا عبدالقادر بیدل کے ایک مشہور شعر کا حوالہ دینا چاہتا ہوں جو تخلیق کائنات اور تخلیق آدم کے اس فلسفہ کو بہت خوبصورتی سے واضح کرتا ہے : ہر دو عالم خاک شد تا بست نقش آدمی اے بہار نیستی از قدر خود ہشیار باش ! مرزا عبدالقادر بیدل ہندوستان میں اور نگ زیب عالمگیر کے زمانے میں تھے۔ وہ عظیم فلسفی اور فارسی کے بہت بڑے شاعر تھے۔ ان کا شمار دنیا کے چوٹی کے فلسفیوں میں ہوتا تھا۔ ان کی شاعرانہ عظمت کے سامنے مرزا غالب بھی پانی بھرتے اور ان کی طرز کو اپنانے میں فخر محسوس کرتے نظر آتے ہیں : طرز بیدل میں ریختہ لکھنا اسد اللہ خاں قیامت ہے ! موضوع کی اہمیت کے پیش نظر یہاں مرزا بیدل کے مندرجہ بالا شعر کی وضاحت ضروری ہے۔ اس شعر میں وہ فرماتے ہیں ”ہر دو عالم خاک شد“ یعنی دونوں عالم خاک ہوگئے۔ شاعر کے اپنے ذہن میں اس کی وضاحت کیا تھی اس کے بارے میں شاعر خود جانتا ہے یا اللہ تعالیٰ۔ لیکن میں اس سے یہ نکتہ سمجھا ہوں کہ اللہ تعالیٰ نے عالم امر کو تنزل کے مختلف مراحل سے گزار کر عالم خلق کی شکل دی۔ پھر اس کے مزید تنزلات کے نتیجے میں زمین مٹی پیدا کی گئی۔ گویا دونوں جہانوں نے خاک کی صورت اختیار کرلی تب جا کر کہیں حیات ارضی کا سلسلہ شروع ہوا اور پھر اس سلسلے میں ارتقا کا وہ بلند ترین مرحلہ آیا : ”تابست نقش آدمی !“ جب آدمی کا نقش بننا شروع ہوا۔ دوسرے مصرعے میں اے بہار نیستی از قدر خود ہشیار باش ! ”نیست“ کے فلسفے کو بھی اچھی طرح سمجھنے کی ضرورت ہے۔ ”وحدت الوجود“ کے فلسفے کے مطابق حقیقی وجود صرف اللہ کا ہے ‘ باقی جو کچھ بھی ہمیں نظر آتا ہے اس میں سے کسی چیز کا وجود حقیقی نہیں ہے۔ گویا اللہ کے علاوہ اس کائنات کی ہرچیز ”نیست“ ہے ”ہست“ نہیں ہے : کُلُّ مَا فِی الْکَوْنِ وَ ھْمٌ اَوْ خَیَالٌ اَوْ عُکُوسٌ فِی المَرایَا اَوْ ظِلَال یعنی اللہ کے وجود کے علاوہ جو وجود بھی نظر آتے ہیں وہ وہم ہیں یا خیالی تصویریں۔ اس طرح یہ تمام عالم گویا ”نیست“ ہے اور اس عالم نیست کی ”بہار“ انسان ہے جس کے بارے میں اللہ تعالیٰ نے فرمایا : خَلَقْتُ بِیَدَیَّ صٓ: 75 کہ میں نے اسے اپنے دونوں ہاتھوں سے بنایا ہے۔ اللہ کا ایک ہاتھ گویا عالم امر اور دوسرا ہاتھ عالم خلق ہے۔ اس طرح انسان اللہ تعالیٰ کے عمل تخلیق کا کلائمکس ‘ مسجود ملائک اور خلیفۃ اللہ ہے۔ چناچہ مرزا بیدل فرماتے ہیں اے بہار نیستی از قدر خود ہوشیار باش ! کہ اے انسان ! اے اس عالم نیستی کی بہار ! ذرا اپنے مقام و مرتبہ کو پہچانو ! تمہیں وجود میں لانے کے لیے اللہ تعالیٰ نے ہر دو عالم کو نہ جانے تنزلات کی کن کن منازل سے نیچے اتار کر خاک کیا ‘ تب کہیں جا کر تمہارا نقش بنا۔
Top