Bayan-ul-Quran - Al-Israa : 11
وَ یَدْعُ الْاِنْسَانُ بِالشَّرِّ دُعَآءَهٗ بِالْخَیْرِ١ؕ وَ كَانَ الْاِنْسَانُ عَجُوْلًا
وَيَدْعُ : اور دعا کرتا ہے الْاِنْسَانُ : انسان بِالشَّرِّ : برائی کی دُعَآءَهٗ : اس کی دعا بِالْخَيْرِ : بھلائی کی وَكَانَ : اور ہے الْاِنْسَانُ : انسان عَجُوْلًا : جلد باز
اور انسان شر مانگ بیٹھتا ہے (اپنے نزدیک) بھلائی مانگتے ہوئے اور انسان بہت جلد باز ہے
آیت 11 وَيَدْعُ الْاِنْسَان بالشَّرِّ دُعَاۗءَهٗ بالْخَيْرِ یعنی انسان اللہ سے دعا کر رہا ہوتا ہے کہ اے اللہ ! میرے لیے یوں کر دے یوں کر دے۔ حالانکہ اسے کچھ معلوم نہیں ہوتا کہ جو کچھ وہ اپنے لیے مانگ رہا ہے وہ اس کے لیے مفید ہے یا مضر۔ اس طرح انسان اپنے لیے اکثر وہ کچھ مانگ لیتا ہے جو اس کے لیے الٹا نقصان دہ ہوتا ہے۔ سورة البقرۃ میں فرمایا گیا ہے : عَسٰٓى اَنْ تَكْرَھُوْا شَـيْـــًٔـا وَّھُوَ خَيْرٌ لَّكُمْ ۚ وَعَسٰٓى اَنْ تُحِبُّوْا شَـيْـــــًٔـا وَّھُوَ شَرٌّ لَّكُمْ ۭ وَاللّٰهُ يَعْلَمُ وَاَنْتُمْ لَا تَعْلَمُوْنَ ”ممکن ہے کہ تم کسی چیز کو ناپسند کرو اور وہ تمہارے لیے بہتر ہو اور ممکن ہے کہ تم کسی چیز کو پسند کرو اور وہ تمہارے لیے شر ہو اللہ جانتا ہے اور تم نہیں جانتے“۔ چناچہ بہتر لائحہ عمل یہ ہے کہ اللہ پر توکل کرتے ہوئے انسان اپنے معاملات اس کے حوالے کر دے کہ اے اللہ ! میرے معاملات تیرے سپرد ہیں کیونکہ میرے نفع و نقصان کو تو مجھ سے بہتر جانتا ہے : سپردم بتو مایۂ خویش را تو دانی حساب کم و بیش را ! دعائے استخارہ میں بھی ہمیں تفویض امر کا یہی انداز سکھایا گیا ہے : اَللّٰھُمَّ اِنِّیْ اَسْتَخِیْرُکَ بِعِلْمِکَ وَاَسْتَقْدِرُکَ بِقُدْرَتِکَ وَاَسْءَلُکَ مِنْ فَضْلِکَ الْعَظِیْمِ ‘ فَاِنَّکَ تَقْدِرُ وَلَا اَقْدِرُ وَتَعْلَمُ وَلَا اَعْلَمُ وَاَنْتَ عَلَّامُ الْغُیُوْبِ 1 ”اے اللہ ! میں تیرے علم کی بدولت تجھ سے خیر چاہتا ہوں اور تیری قدرت کی برکت سے طاقت مانگتا ہوں اور تجھ سے سوال کرتا ہوں تیرے فضل عظیم کا ‘ بیشک تو ہرچیز پر قدرت رکھتا ہے اور میرے اختیار میں کچھ بھی نہیں تو سب کچھ جانتا ہے اور میں کچھ بھی نہیں جانتا اور تو ہر قسم کے غیب کو جاننے والا ہے۔“ بہرحال انسان کا عمومی رویہ یہی ہوتا ہے کہ وہ اللہ پر توکل کرنے کے بجائے اپنی عقل اور سوچ پر انحصار کرتا ہے اور اس طرح اپنے لیے خیر کی جگہ شر کی دعائیں کرتا رہتا ہے۔ وَكَانَ الْاِنْسَانُ عَجُوْلًا اپنی اس جلد بازی اور کوتاہ نظری کی وجہ سے وہ شر کو خیر اور خیر کو شر سمجھ بیٹھتا ہے۔
Top