Bayan-ul-Quran - Al-Kahf : 102
اَفَحَسِبَ الَّذِیْنَ كَفَرُوْۤا اَنْ یَّتَّخِذُوْا عِبَادِیْ مِنْ دُوْنِیْۤ اَوْلِیَآءَ١ؕ اِنَّاۤ اَعْتَدْنَا جَهَنَّمَ لِلْكٰفِرِیْنَ نُزُلًا
اَفَحَسِبَ : کیا گمان کرتے ہیں الَّذِيْنَ كَفَرُوْٓا : وہ جنہوں نے کفر کیا اَنْ يَّتَّخِذُوْا : کہ وہ بنالیں گے عِبَادِيْ : میرے بندے مِنْ دُوْنِيْٓ : میرے سوا اَوْلِيَآءَ : کارساز اِنَّآ : بیشک ہم اَعْتَدْنَا : ہم نے تیار کیا جَهَنَّمَ : جہنم لِلْكٰفِرِيْنَ : کافروں کے لیے نُزُلًا : ضیافت
کیا کافروں نے یہ سمجھ رکھا ہے کہ وہ میرے ہی بندوں کو میرے مقابلے میں اپنے حمایتی بنا لیں گے یقیناً ہم نے تیار کر رکھا ہے جہنم کو ایسے کافروں کی مہمانی کے لیے
اس آخری رکوع میں بہت واضح الفاظ میں بتادیا گیا ہے کہ اللہ کی نظر میں کون لوگ حقیقی گمراہی اور کفر و دجل میں مبتلا ہیں۔ اگرچہ قرب قیامت کے زمانے میں ایک شخص معینّ ”دجال اکبر“ کا فتنہ اور اس کا ظہور اپنی جگہ ایک حقیقت ہے یہ اس کی تفصیل کا موقع نہیں مگر عمومی طور پر دجالیت کا فتنہ یہی ہے کہ انسان حصول دنیا میں مشغول ہو کر اس حد تک غافل ہوجائے کہ اسے نہ تو اپنے دار آخرت کی کوئی فکر رہے اور نہ ہی اپنے خالق ومالک کی مرضی و منشا کا کچھ ہوش رہے۔ وہ اس ”عروس ہزار داماد“ کی زلف گرہ گیر کا ایسا اسیر ہو کہ اس کی ظاہری دل فریبیوں اور چمک دمک ہی میں کھو کر رہ جائے۔ آیت 102 اَفَحَسِبَ الَّذِيْنَ كَفَرُوْٓا اَنْ يَّــتَّخِذُوْا عِبَادِيْ مِنْ دُوْنِيْٓ اَوْلِيَاۗءَ یہ لوگ جن انبیاء و رسل ملائکہ اور صلحاء کو میرے شریک ٹھہراتے ہیں اور اپنا کارساز سمجھتے ہیں وہ سب میرے بندے ہیں۔ کیا ان کا خیال ہے کہ میرے یہ بندے میرے مقابلے میں ان کی مدد اور حمایت کریں گے ؟ خواہ حضرت عیسیٰ ہوں یا عبدالقادر جیلانی میرے یہ بندے میرے مقابلے میں ان کے حامی و مددگار اور حاجت روا ثابت ہوں گے ؟
Top