Bayan-ul-Quran - Al-Kahf : 72
قَالَ اَلَمْ اَقُلْ اِنَّكَ لَنْ تَسْتَطِیْعَ مَعِیَ صَبْرًا
قَالَ : اس (خضر) نے کہا اَلَمْ اَقُلْ : کیا میں نے نہیں کہا اِنَّكَ : بیشک تو لَنْ تَسْتَطِيْعَ : ہرگز نہ کرسکے گا تو مَعِيَ : میرے ساتھ صَبْرًا : صبر
اس نے کہا : میں نے کہا نہیں تھا کہ آپ میرے ساتھ صبر نہیں کرسکیں گے
آیت 72 قَالَ اَلَمْ اَقُلْ اِنَّكَ لَنْ تَسْتَطِيْعَ مَعِيَ صَبْرًا اس قصہ میں مذکور تین واقعات کے حوالے سے ایک اہم بات سمجھنے کی یہ ہے کہ اللہ کے جن احکام کے مطابق اس کائنات کا نظام چل رہا ہے ان کی حیثیت تشریعی شریعت سے متعلق نہیں بلکہ تکوینی کائنات کے انتظامی امور سے متعلق ہے۔ ان احکام کی تنفیذ کے لیے فرشتے مقرر ہیں۔ اس سلسلے میں شاہ ولی اللہ کی رائے یہ بھی ہے کہ اس مقصد کے لیے اولیاء اللہ کی ارواح کو بھی ملائکہ کے طبقہ اسفل میں شامل کردیا جاتا ہے اور وہ بھی فرشتوں کے ساتھ مل کر اللہ تعالیٰ کے احکام کی تنفیذ میں حصہ لیتے ہیں۔ بہر حال ان تکوینی احکام کی تعمیل کے نتیجے میں جو واقعات رونما ہوتے ہیں ہم ان کے صرف ظاہری پہلوؤں کو ہی دیکھ سکتے ہیں۔ کسی واقعہ کے پیچھے اللہ کی مشیت کیا ہے ؟ اس کا ادراک ہم نہیں کرسکتے۔ ضروری نہیں کہ کوئی واقعہ یا کوئی چیز بظاہر جیسے دکھائی دے اس کی حقیقت بھی ویسی ہی ہو۔ ممکن ہے ہم کسی چیز کو اپنے لیے برا سمجھ رہے ہوں مگر اس کے اندر ہمارے لیے خیر ہو اور جس چیز کو اچھا سمجھ رہے ہوں وہ حقیقت میں اچھی نہ ہو۔ سورة البقرۃ میں ہم یہ آیت پڑھ چکے ہیں : وَعَسٰٓى اَنْ تَكْرَھُوْا شَـيْـــًٔـا وَّھُوَ خَيْرٌ لَّكُمْ ۚ وَعَسٰٓى اَنْ تُحِبُّوْا شَـيْـــــًٔـا وَّھُوَ شَرٌّ لَّكُمْ ۭ وَاللّٰهُ يَعْلَمُ وَاَنْتُمْ لَا تَعْلَمُوْنَ ”ہوسکتا ہے تم کسی چیز کو برا سمجھو اور وہ تمہارے لیے بہتر ہو اور ہوسکتا ہے تم کسی چیز کو پسند کرو اور وہ تمہارے لیے بری ہو اللہ جانتا ہے اور تم نہیں جانتے“۔ چناچہ ایک بندۂ مؤمن کو تفویض الامر کا رویہ اپنانا چاہیے کہ اے اللہ ! میرا معاملہ تیرے سپرد ہے میرے لیے جو تو پسند کرے گا میں اسی پر راضی رہوں گا کیونکہ تیرے ہاتھ میں خیر ہی خیر ہے : بِیَدِکَ الْخَیْرُ آل عمران 26۔
Top