Bayan-ul-Quran - Al-Kahf : 94
قَالُوْا یٰذَا الْقَرْنَیْنِ اِنَّ یَاْجُوْجَ وَ مَاْجُوْجَ مُفْسِدُوْنَ فِی الْاَرْضِ فَهَلْ نَجْعَلُ لَكَ خَرْجًا عَلٰۤى اَنْ تَجْعَلَ بَیْنَنَا وَ بَیْنَهُمْ سَدًّا
قَالُوْا : انہوں نے کہا يٰذَا الْقَرْنَيْنِ : اے ذوالقرنین اِنَّ : بیشک يَاْجُوْجَ : یاجوج وَ : اور مَاْجُوْجَ : ماجوج مُفْسِدُوْنَ : فساد کرنیوالے (فسادی) فِي الْاَرْضِ : زمین میں فَهَلْ : تو کیا نَجْعَلُ : ہم کردیں لَكَ : تیرے لیے خَرْجًا : کچھ مال عَلٰٓي : پر۔ تاکہ اَنْ تَجْعَلَ : کہ تو بنادے بَيْنَنَا : ہمارے درمیان وَبَيْنَهُمْ : اور ان کے درمیان سَدًّا : ایک دیوار
انہوں نے کہا اے ذوالقرنین ! یا جوج اور ماجوج زمین میں بہت فساد مچانے والے لوگ ہیں تو کیا ہم آپ کو کچھ خراج ادا کریں کہ اس کے عوض آپ ہمارے اور ان کے درمیان ایک دیوار بنا دیں
فَهَلْ نَجْعَلُ لَكَ خَرْجًاعَلٰٓي اَنْ تَجْعَلَ بَيْنَنَا وَبَيْنَهُمْ سَدًّا یعنی آپ ان پہاڑوں کے درمیان واقع اس واحد قدرتی گزر گاہ کو بند کردیں تاکہ یاجوج و ماجوج ہم پر حملہ آور نہ ہو سکیں۔ یہ وہی تصور یا اصول تھا جس کے تحت آج کل دریاؤں پر ڈیم تعمیر کیے جاتے ہیں۔ یعنی دو متوازی پہاڑی سلسلوں کے درمیان اگر دریا کی گزرگاہ ہے تو کسی کو مناسب مقام پر مضبوط دیوار بنا کر پانی کا راستہ روک دیا جائے تاکہ دریا ایک بہت بڑی جھیل کی شکل اختیار کرلے۔ یہ یاجوج ماجوج کون ہیں ؟ ان کے بارے میں جاننے کے لیے نسل انسانی کی قدیم تاریخ کا مطالعہ ضروری ہے۔ قدیم روایات کے مطابق حضرت نوح کے بعد نسل انسانی آپ کے تین بیٹوں سام حام اور یافث سے چلی تھی۔ ان میں سے سامی نسل تو بہت معروف ہے۔ قوم عاد قوم ثمود اور حضرت ابراہیم سب سامی نسل میں سے تھے۔ حضرت یافث کی اولاد کے لوگ وسطی ایشیا کے پہاڑی سلسلے کو عبور کر کے شمال کی طرف چلے گئے۔ وہاں سے ان کی نسل بڑھتے بڑھتے شمالی ایشیا اور یورپ کے علاقوں میں پھیل گئی۔ چناچہ مشرق میں چین اور ہند چینی کی yellow races مغرب میں روس اور سکنڈے نیوین ممالک کی اقوام مغربی یورپ کے Anglo Saxons مشرقی یورپ میں خصوصی طور پر شمالی علاقوں اور صحرائے گوبی کے علاقوں کی تمام آبادی حضرت یافث کی نسل سے تعلق رکھتی ہے۔ تورات میں حضرت یافث کے بہت سے بیٹوں کے نام ملتے ہیں۔ ان میں Mosc , Tobal , Gog Magog وغیرہ قابل ذکر ہیں ممکن ہے روس کا شہر ماسکو حضرت یافث کے بیٹے ماسک نے آباد کیا ہو۔ اسی طرح Baltic Sea اور Baltic States کا نام غالباً Tobal کے نام پر ہے۔ بہر حال یورپ کی اینگلو سیکسن اقوام اور تمام Nordic Races یاجوج ماجوج ہی کی نسل سے ہیں۔ بنیادی طور پر یہ غیر متمدن اور وحشی لوگ تھے جن کا پیشہ لوٹ مار اور قتل و غارت گری تھا۔ وہ اپنے ملحقہ علاقوں پر حملہ آور ہوتے قتل و غارت کا بازار گرم کرتے اور لوٹ مار کر کے واپس چلے جاتے۔ ان کی اس غارت گری کی جھلک موجودہ دنیا نے بھی دیکھی جب Anglo Saxons نے ایک سیلاب کی طرح یورپ سے نکل کر دیکھتے ہی دیکھتے پورے ایشیا اور افریقہ کو نو آبادیاتی نظام کے شکنجے میں جکڑ لیا۔ بعد ازاں مختلف عوامل کی بنا پر انہیں ان علاقوں سے بظاہر پسپا تو ہونا پڑا مگر حقیقت میں دنیا کے بہت سے ممالک پر بالواسطہ اب بھی ان کا قبضہ ہے۔ آئی ایم ایف اور ورلڈ بینک جیسے ادارے ان کی اسی بالواسطہ حکمرانی کو مضبوط کرنے میں ان کی مدد کرتے ہیں۔ قرب قیامت میں ان قوموں کی ایک اور یلغار ہونے والی ہے۔ اس کی تفصیلات احادیث اور روایات میں اس طرح آئی ہیں کہ قیامت سے قبل دنیا ایک بہت ہولناک جنگ کی لپیٹ میں آجائے گی۔ اس جنگ کو احادیث میں ”الملحمۃ العظمٰی“ جبکہ بائبل میں Armageddon کا نام دیا گیا ہے۔ مشرق وسطیٰ کا علاقہ اس جنگ کا مرکزی میدان بنے گا۔ اس جنگ میں ایک طرف عیسائی دنیا اور تمام یورپی اقوام ہوں گی اور دوسری طرف مسلمان ہوں گے۔ اسی دوران اللہ تعالیٰ مسلمانوں کو ایک عظیم لیڈر امام مہدی کی صورت میں عطا کرے گا۔ امام مہدی عرب میں پیدا ہوں گے اور وہ مجدد ہوں گے۔ پھر کسی مرحلے پر حضرت عیسیٰ کا نزول ہوگا۔ خراسان کے علاقے سے مسلمان افواج ان کی مدد کو جائیں گی۔ پھر اس جنگ کا خاتمہ اس طرح ہوگا کہ حضرت عیسیٰ دجال کو قتل کردیں گے یہودیوں کا خاتمہ ہوجائے گا اور تمام عیسائی مسلمان ہوجائیں گے۔ یوں اسلام کو عروج ملے گا اور دنیا میں اسلامی حکومت قائم ہوجائے گی۔ اللہ تعالیٰ مسلمانان پاکستان کو توفیق دے کہ اس سے پہلے وہ یہاں نظام خلافت قائم کرلیں اور ہمسایہ علاقہ خراسان سے جو فوجیں امام مہدی کی مدد کے لیے روانہ ہوں ان میں ہمارے لوگ بھی شامل ہوں۔ جب ہولناک جنگ اپنے انجام کو پہنچ جائے گی تو اس کے بعد یاجوج ماجوج کی بہت بڑی یلغار ہوگی۔ میرے خیال میں یہ لوگ چین اور ہند چینی وغیرہ علاقوں کی طرف سے حملہ آور ہوں گے۔ یہ لوگ Armageddon میں حصہ نہیں لیں گے بلکہ اس کے بعد اس علاقے پر یلغار کر کے تباہی مچائیں گے۔ سورة الانبیاء کی آیات 94 ‘ 97 اور 98 میں ان کی اس یلغار کا ذکر قرب قیامت کے واقعات کے حوالے سے کیا گیا ہے۔
Top