Bayan-ul-Quran - Al-Baqara : 112
اَمْ لَهُمْ اٰلِهَةٌ تَمْنَعُهُمْ مِّنْ دُوْنِنَا١ؕ لَا یَسْتَطِیْعُوْنَ نَصْرَ اَنْفُسِهِمْ وَ لَا هُمْ مِّنَّا یُصْحَبُوْنَ
اَمْ : کیا لَهُمْ : ان کے لیے اٰلِهَةٌ : کچھ معبود تَمْنَعُهُمْ : انہیں بچاتے ہیں مِّنْ دُوْنِنَا : ہمارے سوا لَا يَسْتَطِيْعُوْنَ : وہ سکت نہیں رکھتے نَصْرَ : مدد اَنْفُسِهِمْ : اپنے آپ وَ : اور لَا هُمْ : نہ وہ مِّنَّا : ہم سے يُصْحَبُوْنَ : وہ ساتھی پائیں گے
کیوں نہیں ہر وہ شخص جو اپنا چہرہ اللہ کے سامنے جھکا دے اور وہ محسن ہو اور ایسے لوگوں کو نہ تو کوئی خوف لاحق ہوگا اور نہ ہی وہ کسی حزن و ملال سے دوچار ہوں گے
آیت 112 بَلٰی ق مَنْ اَسْلَمَ وَجْہَہٗ لِلّٰہِ وَہُوَ مُحْسِنٌ اس کا سر تسلیم خم کردینے کا رویہ صدق و سچائی اور حسن کردار پر مبنی ہو۔ سر کا جھکانا منافقانہ انداز میں نہ ہو ‘ اس کی اطاعت جزوی نہ ہو کہ کچھ مانا کچھ نہیں مانا۔ َ ّ فَلَہٗ اَجْرُہٗ عِنْدَ رَبِّہٖص تو اس کے لیے اس کا اجر محفوظ ہے اس کے رب کے پاس۔ وَلاَ خَوْفٌ عَلَیْہِمْ وَلاَ ہُمْ یَحْزَنُوْنَ ۔ یہ دوسری آیت ہے کہ جس سے کچھ لوگوں نے استدلال کیا ہے کہ نجات اخروی کے ‘ لیے ایمان بالرسالت ضروری نہیں ہے۔ اس کا جواب پہلے عرض کیا جا چکا ہے۔ مختصراً یہ کہ : اوّلًا قرآن حکیم میں ہر مقام پر ساری چیزیں بیان نہیں کی جاتیں۔ کوئی شے ایک جگہ بیان کی گئی ہے تو کوئی کہیں دوسری جگہ بیان کی گئی ہے۔ اس سے ہدایت حاصل کرنی ہے تو اس کو پورے کا پورا ایک کتاب کی حیثیت سے لینا ہوگا۔ ثانیاً یہ سارا سلسلۂ کلام دو بریکٹوں کے درمیان آ رہا ہے اور اس سے پہلے یہ الفاظ واضح طور پر آ چکے ہیں : وَاٰمِنُوْا بِمَا اَنْزَلْتُ مُصَدِّقًا لِّمَا مَعَکُمْ وَلَا تَکُوْنُوْٓا اَوَّلَ کَافِرٍ بِہٖ ص چناچہ یہ عبارت ضرب کھا رہی ہے اس پورے کے پورے سلسلۂ مضامین سے جو ان دو بریکٹوں کے درمیان آ رہا ہے۔
Top