Bayan-ul-Quran - Al-Hajj : 73
یٰۤاَیُّهَا النَّاسُ ضُرِبَ مَثَلٌ فَاسْتَمِعُوْا لَهٗ١ؕ اِنَّ الَّذِیْنَ تَدْعُوْنَ مِنْ دُوْنِ اللّٰهِ لَنْ یَّخْلُقُوْا ذُبَابًا وَّ لَوِ اجْتَمَعُوْا لَهٗ١ؕ وَ اِنْ یَّسْلُبْهُمُ الذُّبَابُ شَیْئًا لَّا یَسْتَنْقِذُوْهُ مِنْهُ١ؕ ضَعُفَ الطَّالِبُ وَ الْمَطْلُوْبُ
يٰٓاَيُّهَا النَّاسُ : اے لوگو ! ضُرِبَ : بیان کی جاتی ہے مَثَلٌ : ایک مثال فَاسْتَمِعُوْا : پس تم سنو لَهٗ : اس کو اِنَّ : بیشک الَّذِيْنَ : وہ جنہیں تَدْعُوْنَ : تم پکارتے ہو مِنْ دُوْنِ اللّٰهِ : اللہ کے سوا لَنْ يَّخْلُقُوْا : ہرگز نہ پیدا کرسکیں گے ذُبَابًا : ایک مکھی وَّلَوِ : خواہ اجْتَمَعُوْا : وہ جمع ہوجائیں لَهٗ : اس کے لیے وَاِنْ : اور اگر يَّسْلُبْهُمُ : ان سے چھین لے الذُّبَابُ : مکھی شَيْئًا : کچھ لَّا يَسْتَنْقِذُوْهُ : نہ چھڑا سکیں گے اسے مِنْهُ : اس سے ضَعُفَ : کمزور (بودا ہے) الطَّالِبُ : چاہنے والا وَالْمَطْلُوْبُ : اور جس کو چاہا
اے لوگو ! ایک مثال بیان کی جاتی ہے پس اسے ذرا توجہّ سے سنو یقیناً (تمہارے وہ معبود) جنہیں تم اللہ کے سوا پکارتے ہو ایک مکھی بھی تخلیق نہیں کرسکتے اگرچہ وہ سب اس کے لیے اکٹھے ہوجائیں اور اگر مکھی ان سے کوئی چیز چھین لے جائے تو یہ اس سے وہ چیز چھڑا نہیں سکتے کس قدر کمزور ہے طالب بھی اور مطلوب بھی
اس سورة مبارکہ کا آخری رکوع اپنے مضامین کے اعتبار سے بہت اہم ہے۔ اسی اعتبار سے یہ ہمارے ”مطالعہ قرآن حکیم کے منتخب نصاب“ میں بھی شامل ہے۔ چناچہ اس رکوع کے مطالعہ سے پہلے میں ”منتخب نصاب“ اور اس کی غرض وغایت کے حوالے سے بھی چند باتیں عرض کرنا چاہتا ہوں۔ الحمدللہ ! ہم نے ”رجوع الی القرآن“ کی جو تحریک شروع کر رکھی ہے اور اللہ کی توفیق سے اب تک میں اس میں اپنی زندگی کے 35 سال صرف کرچکا ہوں واضح رہے کہ یہ دروس جن پر ”بیان القرآن“ مشتمل ہے ‘ 1998 ء کے ہیں۔ اسی تحریک کی کو کھ سے تنظیم اسلامی اور تحریک خلافت نے جنم لیا ہے ‘ ہماری اس دعوت ”رجوع الی القرآن“ کی بنیاد ”مطالعہ قرآن حکیم کا منتخب نصاب“ ہے۔ اس منتخب نصاب کو میں نے ذریعہ بنایا ہے لوگوں کو قرآن سے متعارف کرانے کا اور ایک مسلمان پر دین کی طرف سے جو بنیادی فرائض عائد ہوتے ہیں ان فرائض کا ایک جامع تصور ان کے سامنے رکھنے کا۔ یعنی دین کے وہ فرائض جن کے بارے میں ہم سے قیامت کے دن باز پرس ہونی ہے ان کا ایک صحیح تصور مختصر الفاظ میں ہمارے سامنے آجائے۔ جہاں تک نماز ‘ روزہ وغیرہ کا تعلق ہے ‘ اس کے بارے میں تو سب جانتے ہیں کہ وہ بنیادی فرائض میں سے ہیں ‘ لیکن کیا ہم پر اس کے علاوہ بھی کچھ فرائض عائد ہوتے ہیں ؟ کیا ہم کچھ اور امور میں بھی مسؤل ہیں ؟ کیا بحیثیت مسلمان اس سے بڑھ کر کچھ مزید بھی ہماری ذمہ داری ہے ؟ ان سب سوالات کے جوابات اس منتخب نصاب کے مطالعے میں موجود ہیں۔ یہ نصاب تقریباً دو پاروں کے برابر ہے۔ یعنی حجم کے اعتبار سے یہ قرآن مجید کا 15/1 واں حصہ ہے۔ قرآن مجید کے اب تک کے مطالعے بیان القرآن کے دوران ہم منتخب نصاب کے کچھ حصوں کا مطالعہ بھی کر آئے ہیں ‘ لیکن چونکہ اس نصاب میں زیادہ تر آیات اور سورتیں قرآن حکیم کے نصف ثانی بلکہ آخری حصے سے شامل ہوئی ہیں ‘ اس لیے زیادہ تر مقامات کا مطالعہ ابھی باقی ہے۔ اگرچہ ان مقامات اور اسباق کا انتخاب کرتے ہوئے یہ بات میرے ذہن میں نہیں تھی کہ قرآن کے کس حصے سے کتنا حصہ منتخب کیا جائے ‘ لیکن عملی طور پر قرآن کے آخری حصے سے زیادہ آیات منتخب ہوئی ہیں۔ اس صورت حال کی ایک بہت خوبصورت مشابہت حروف مقطعات کے ساتھ ہے جس کی طرف آج اچانک میرا ذہن منتقل ہوا ہے اور وہ یہ کہ عربی کے 28 یا 29 حروف تہجی کی جو تختی ہے اس کے نصف اول میں سے بہت کم حروف ہیں جو حرف مقطعات میں شامل ہوئے ہیں ‘ جبکہ اس تختی کے نصف ثانی میں سے بہت سے حروف ہیں جو حروف مقطعات میں آئے ہیں۔ یہ تو بہرحال ایک اضافی نکتہ تھا۔ اس وقت منتخب نصاب کے عمومی تعارف اور اس میں سورة الحج کے آخری رکوع کی اہمیت کے حوالے سے بات ہو رہی ہے۔ اس منتخب نصاب کے کل چھ حصے ہیں۔ پہلا حصہ ”جامع اسباق“ پر مشتمل ہے۔ اس کا آغاز سورة العصر سے ہوتا ہے جو قرآن حکیم کی ایک مختصر مگر انتہائی جامع سورت ہے۔ اس میں انسان کی نجات اخروی کے چار لوازم یعنی ایمان ‘ عمل صالح ‘ تواصی بالحق اور تواصی بالصبر بیان ہوئے ہیں۔ اس کے بعد پہلے حصے میں قرآن کے تین ایسے جامع مقامات شامل کیے گئے ہیں جن میں نجات کے انہیں چاروں لوازم کا ذکر تفصیل کے ساتھ ہے۔ پہلے حصے کا دوسرا درس سورة البقرۃ کی آیت 177 آیت البر پر مشتمل ہے جس میں نیکی کی حقیقت پر تفصیلی بحث ہوئی ہے کہ یوں تو ہر شخص اپنے ذہن میں نیکی کا ایک اپنا تصور رکھتا ہے لیکن اصل اور جامع نیکی کون سی ہے ؟ نیکی کی روح کیا ہے ؟ اس کی جڑ اور بنیاد کیا ہے ؟ اس کا سب سے اونچا مقام کیا ہے ؟ اور اس کا مقام مطلوب کون سا ہے ؟ حصہ دوم میں ایمان سے متعلق مباحث ہیں کہ ایمان کیا ہے اور یہ کیسے وجود میں آتا ہے ؟ اس حصے کے دروس میں سورة الفاتحہ کا درس ‘ سورة آل عمران کے آخری رکوع کی آیات کا درس اور سورة النور کے پانچویں رکوع کا درس شامل ہیں۔ اس نصاب کا تیسرا حصہ اعمال صالحہ کے بارے میں ہے۔ اس میں انفرادی و اجتماعی سطح پر اور پھر معاشرتی و ریاستی سطح پر اعمال صالحہ کی اہمیت ‘ کیفیت ‘ ضرورت وغیرہ پر روشنی ڈالی گئی ہے۔ معاشرتی سطح پر اعمال صالحہ کی تفصیلات کے سلسلے میں سورة بنی اسرائیل کے تیسرے اور چوتھے رکوع کا اہم درس بھی اس حصے میں شامل ہے۔ ان آیات میں جو احکام مذکور ہیں وہ تورات کے ”احکام عشرہ“ یعنی En Commandments کی قرآنی تشریح و تعبیر کا درجہ رکھتے ہیں۔ منتخب نصاب کے چوتھے حصے کا پہلا درس سورة الحج کے اس رکوع پر مشتمل ہے جو اب ہمارے زیر مطالعہ آرہا ہے۔ گویا اس کی جگہ منتخب نصاب کے عین وسط میں ہے۔ قرآن کی دعوت کے اعتبار سے یہ قرآن حکیم کا جامع ترین مقام ہے۔ اس میں قرآنی دعوت کو دو حصوں میں تقسیم کر کے بیان فرمایا گیا ہے۔ یعنی ایک دعوت عمومی اور دوسری دعوت خصوصی۔ قرآن کی دعوت عمومی بنی نوع انسان کے ہر فرد کے لیے ہے۔ کوئی فرد دنیا کے کسی گوشے یا کسی نسل سے تعلق رکھتا ہو ‘ کسے باشد ! وہ قرآن کی اس دعوت کا مخاطب ہے۔ یہ عمومی دعوت دراصل ایمان کی دعوت ہے۔ چونکہ نبی آخر الزماں ﷺ کی بعثت دنیا کے تمام انسانوں کے لیے ہے : وَمَآ اَرْسَلْنٰکَ اِلَّا کَآفَّۃً لِّلنَّاسِ بَشِیْرًا وَّنَذِیْرًا سبا : 28 اس لیے ایمان کی یہ دعوت تمام انسانوں کے لیے ہے کہ لوگو ! اللہ پر ایمان لاؤ ‘ رسول پر لاؤ ‘ آخرت ‘ بعث بعد الموت ‘ جنت اور دوزخ پر ایمان لاؤ ! یہ پہلے درجے کی دعوت ہے اور پہلے درجے میں صرف ماننے کی دعوت ہی دی جاسکتی ہے۔ اس درجے پر عمل نماز ‘ روزہ وغیرہ کی دعوت نہیں دی جاسکتی ‘ کیونکہ جو انسان اللہ ‘ رسول اور قرآن کو نہیں مانتا اس کے لیے نماز اور روزہ کی کیا اہمیت ہوسکتی ہے ! اس کے بعد خصوصی دعوت کا درجہ ہے اور اس کے مخاطب وہ لوگ ہیں جو پہلی دعوت یعنی دعوت ایمان پر لبیک کہتے ہیں۔ یعنی جو لوگ دعوت ایمان کو قبول کریں گے انہیں دعوت عمل کے ذریعے ایمان کے تقاضے پورے کرنے کی ضرورت و اہمیت سے آگاہ کیا جائے گا۔ چناچہ اس رکوع کی چھ آیات میں دعوت قرآنی کے ان دونوں عمومی اور خصوصی درجوں کو علیحدہ علیحدہ بیان کیا گیا ہے۔ پہلی چار آیات میں ”یٰٓاَیُّہَا النَّاسُ“ کے الفاظ سے پوری بنی نوع انسان کو خطاب کیا گیا ہے ‘ جبکہ آخری دو آیات میں ”یٰٓاَیُّہَا الَّذِیْنَ اٰمَنُوا“ کے الفاظ کے ساتھ اہل ایمان کو دعوت عمل دی گئی ہے۔ اِنَّ الَّذِیْنَ تَدْعُوْنَ مِنْ دُوْنِ اللّٰہِ لَنْ یَّخْلُقُوْا ذُبَابًا وَّلَوِ اجْتَمَعُوْا لَہٗ ط ” چونکہ اس کے مخاطبِ اوّل مکہّ کے ُ بت پرست تھے اس لیے انہیں شعور دلانے کے لیے ان کے ُ بتوں کی مثال دی گئی ہے کہ خانہ کعبہ میں سجائے گئے تمہارے یہ تین سو ساٹھ بت مل کر بھی کوشش کرلیں تب بھی ایک مکھی تک نہیں بنا سکتے۔ یہ وہی انداز ہے جو حضرت ابراہیم علیہ السلام نے اپنی قوم کے لوگوں کے سامنے ُ بتوں کی بےبسی ظاہر کرنے کے لیے اپنایا تھا۔ آپ علیہ السلام نے ُ بتوں کو توڑ کر ان کے پجاریوں کو اپنے گریبانوں میں جھانکنے پر مجبور کردیا تھا۔ وَاِنْ یَّسْلُبْہُمُ الذُّبَابُ شَیْءًا لَّا یَسْتَنْقِذُوْہُ مِنْہُ ط ” یعنی مکھی کو تخلیق کرنا تو بہت دور کی بات ہے ‘ یہ تو اپنے اوپر سے مکھی کو اڑا بھی نہیں سکتے۔ اگر کوئی مکھی ان کے سامنے پڑے ہوئے حلووں مانڈوں میں سے کچھ لے اڑے تو اس سے وہ چیز واپس بھی نہیں لے سکتے۔ ضَعُفَ الطَّالِبُ وَالْمَطْلُوْبُ ” اس مضمون پر یہ جملہ اس قدر جامع ہے کہ قرآن مجید کے نظریۂ توحید کا عملی لبّ لباب ان تین الفاظ میں سما گیا ہے۔ حقیقت یہ ہے کہ ہر باشعور انسان کا ایک نصب العین ‘ آئیڈل یا آدرش ہوتا ہے ‘ جس کے حصول کے لیے وہ دن رات بھاگ دوڑ کرتا ہے۔ انسان کی شخصیت اور اس کا آئیڈیل آپس میں ایک دوسرے کی پہچان کے لیے معیار اور کسوٹی فراہم کرتے ہیں۔ کسی انسان کا معیار اس کے آئیڈیل سے پہچانا جاتا ہے اور کسی آئیڈیل کا معیار اس کے چاہنے والے کے معیار سے پرکھا جاتا ہے۔ اگر کسی انسان کا آئیڈیل گھٹیا ہے تو لازماً وہ انسان خود بھی اسی سطح پر ہوگا اور اگر کسی کا آئیڈیل اعلیٰ ہوگا تو وہ خود بھی اعلیٰ شخصیت کا مالک ہوگا۔ اس اصول پر ان لوگوں کے ذہنوں کے معیار اور سوچوں کی سطح کا اندازہ لگایا جاسکتا ہے جو پتھر کے بتوں کو اپنے معبود سمجھ کر ان کے آگے جھکتے ہیں۔ جس طالب کا مطلوب اور آئیڈیل ایک ایسا بےجان مجسمہ ہے جو اپنے اوپر سے ایک مکھی تک کو نہیں اڑا سکتا ‘ اس کی اپنی شخصیت کا کیا حال ہوگا : ع ”قیاس کن زگلستانِ من بہار مرا !“ یہ مضمون ذرا مختلف انداز میں سورة البقرۃ کی آیت 165 میں اس طرح آچکا ہے : وَمِنَ النَّاسِ مَنْ یَّتَّخِذُ مِنْ دُوْنِ اللّٰہِ اَنْدَادًا یُّحِبُّوْنَہُمْ کَحُبِّ اللّٰہِ ط کہ لوگوں میں سے کچھ ایسے بھی ہیں جو اللہ کے مدِّ مقابل کچھ معبود بنا کر ان سے ایسے محبت کرنا شروع کردیتے ہیں جیسے اللہ سے محبت کرنی چاہیے۔ اس کے برعکس توحید کا سبق تو یہ ہے : لَا مَحْبُوْبَ الاَّ اللّٰہ ! لَا مَقْصُوْدَ الاَّ اللّٰہ ! لَا مَطْلُوْبَ الاَّ اللّٰہ ! یعنی انسان کا محبوب و مقصود و مطلوب صرف اور صرف اللہ ہے۔ باقی کوئی شے مطلوب و مقصود نہیں ہے ‘ باقی سب ذرائع ہیں۔ انسان کو زندہ رہنے کے لیے اور اپنی ضروریات زندگی پوری کرنے کے لیے مختلف ذرائع سے مدد لینی پڑتی ہے۔ اس سلسلے میں توحید کا تقاضا یہی ہے کہ ان سب چیزوں کو ذرائع کے طور پر استعمال ضرور کریں مگر انہیں اپنا مطلوب و مقصود نہ بنائیں۔ نہ کھیتی کو ‘ نہ دکان کو ‘ نہ کسی ہنر کو ‘ نہ کسی پیشے کو ‘ نہ کسی رشتہ دار ‘ اور نہ اولاد کو ! یہ ہے توحید کاُ لبّ لباب ! جو شخص توحید کے اس تصور تک نہیں پہنچ سکتا اور اللہ کی معرفت اس انداز میں حاصل نہیں کرسکتا ‘ اس کے ذہن کی پستی اسے اللہ کو چھوڑ کر طرح طرح کی چیزوں کی پرستش کرنا سکھاتی ہے اور پھر اسی ڈگر پر چلتے ہوئے کوئی وطن پرست ٹھہرتا ہے تو کوئی قوم پرست قرار پاتا ہے۔ کوئی دولت کی دیوی کا پجاری بن جاتا ہے تو کوئی اپنے نفس کو معبود بنا کر اپنے ہی حریم ذات کے گرد طواف شروع کردیتا ہے۔ ع ”اپنے ہی حسن کا دیوانہ بنا پھرتا ہوں !“
Top