Bayan-ul-Quran - Al-Muminoon : 12
وَ لَقَدْ خَلَقْنَا الْاِنْسَانَ مِنْ سُلٰلَةٍ مِّنْ طِیْنٍۚ
وَ : اور لَقَدْ خَلَقْنَا : البتہ ہم نے پیدا کیا الْاِنْسَانَ : انسان مِنْ : سے سُلٰلَةٍ : خلاصہ (چنی ہوئی) مِّنْ طِيْنٍ : مٹی سے
ہم نے پیدا کیا انسان کو مٹیّ کے خلاصی سے
اب جو مضمون آ رہا ہے وہ اس سے پہلے سورة الحج کی آیت 5 میں بھی آچکا ہے ‘ مگر وہاں اختصار کے ساتھ آیا تھا ‘ جبکہ یہاں زیادہ وضاحت اور جامعیت کے ساتھ آیا ہے۔ اس سے سورة الحج کے ساتھ اس سورت کی مشابہت کا پہلو بھی نظر آتا ہے۔ آیت 12 وَلَقَدْ خَلَقْنَا الْاِنْسَانَ مِنْ سُلٰلَۃٍ مِّنْ طِیْنٍ ” تلوار کو نیام سے باہر کھینچنے کے عمل کو ”سَلَّ یَسُلُّ“ جبکہ نیام سے باہر نکلی ہوئی ننگی تلوار کو ”مَسْلُوْل“ کہا جاتا ہے۔ کسی بھی چیز کا اصل جوہر جو اس میں سے کشید کیا گیا ہو ”سُلَالَۃ“ کہلاتا ہے۔ چناچہ اس آیت کا ایک مفہوم تو یہ ہے کہ حضرت آدم علیہ السلام کو براہ راست مٹی کے جوہر سے تخلیق کیا گیا اور پھر پوری نسل انسانی چونکہ ان کی اولاد تھی اس لیے اپنی تخلیق کے حوالے سے ہر انسان کو گویا اسی مادہ تخلیق یعنی مٹی سے نسبت ٹھہری۔ لیکن میرے نزدیک اس کی زیادہ صحیح تعبیر یہ ہے کہ مرد کے جسم میں بننے والا نطفہ دراصل مٹی سے کشید کیا ہوا جوہر ہے۔ اس لیے کہ انسان کو خوراک تو مٹی ہی سے حاصل ہوتی ہے ‘ چاہے وہ معدنیات اور نباتات کی شکل میں اسے براہ راست زمین سے ملے یا نباتات پر پلنے والے جانوروں سے حاصل ہو۔ اس خوراک کی صورت میں گارے اور مٹی کے جوہر کشید ہو کر انسانی جسم میں جاتے ہیں اور اس سے وہ نطفہ بنتا ہے جس سے بالآخر بچے کی تخلیق ممکن ہوتی ہے۔
Top