Bayan-ul-Quran - Ash-Shu'araa : 63
فَاَوْحَیْنَاۤ اِلٰى مُوْسٰۤى اَنِ اضْرِبْ بِّعَصَاكَ الْبَحْرَ١ؕ فَانْفَلَقَ فَكَانَ كُلُّ فِرْقٍ كَالطَّوْدِ الْعَظِیْمِۚ
فَاَوْحَيْنَآ : پس ہم نے وحی بھیجی اِلٰى : طرف مُوْسٰٓي : موسیٰ اَنِ : کہ اضْرِبْ : تو مار بِّعَصَاكَ : اپنا عصا الْبَحْرَ : دریا فَانْفَلَقَ : تو وہ پھٹ گیا فَكَانَ : پس ہوگیا كُلُّ فِرْقٍ : ہر حصہ كَالطَّوْدِ : پہاڑ کی طرح الْعَظِيْمِ : بڑے
تو ہم نے وحی کی موسیٰ ؑ کی طرف کہ ضرب لگاؤ اپنے عصا کے ساتھ سمندر کو تو وہ پھٹ گیا اور ہر حصہ ایک بہت بڑے پہاڑ کی طرح ہوگیا
فَانْفَلَقَ فَکَانَ کُلُّ فِرْقٍ کَالطَّوْدِ الْعَظِیْمِ ” اپنے مفہوم کے اعتبار سے آیت کے الفاظ بہت واضح ہیں ‘ لیکن اس کے باوجود اگر کوئی شخص ان الفاظ کی لایعنی تاویل کرکے اس واقعہ کو مدوجزر قرار دے تو اسے صرف ڈھٹائی ہی کہا جاسکتا ہے۔ فَلَقَکے معنی پھٹنے کے ہیں اور یہ مادہ اس مفہوم کے ساتھ قرآن میں کثرت سے آیا ہے۔ جیسے : فَالِقُ الْاِصْبَاحِ ج الانعام : 96 ”چاک کرنے والا صبح کی سفیدی کو“۔ اور قُلْ اَعُوْذُ بِرَبِّ الْفَلَقِ الفلق ”کہیے میں پناہ مانگتا ہوں صبح کے رب کی“۔ چناچہ اس آیت میں بھی لفظ فلق کے لغوی معنی ہی مراد ہیں ‘ یعنی سمندر پھٹ گیا اور اس کے دونوں حصے پہاڑ کی طرح کھڑے ہوگئے۔ کون نہیں جانتا کہّ مدوجزر کی کیفیت میں نہ تو سمندر پھٹتا ہے اور نہ ہی اس کا پانی چٹان یا پہاڑ کی طرح کھڑا ہوجاتا ہے۔ چناچہ اس تاویل کے مقابلے میں آیت کے الفاظ کا لغوی اعتبار سے تجزیہ کیا جائے تو قرآن کے اس فرمان کی حقانیت بھی ثابت ہوجاتی ہے : لَا یَاْتِیْہِ الْبَاطِلُ مِنْم بَیْنِ یَدَیْہِ وَلَا مِنْ خَلْفِہٖ ط ” حمٰ السجدۃ : 42 کہ باطل اس کتاب پر حملہ نہیں کرسکتا ‘ نہ سامنے سے اور نہ پیچھے سے۔ یعنی قرآن اپنے مفاہیم و معانی کی حفاظت بھی خود کرتا ہے۔
Top