Bayan-ul-Quran - Al-Ankaboot : 56
یٰعِبَادِیَ الَّذِیْنَ اٰمَنُوْۤا اِنَّ اَرْضِیْ وَاسِعَةٌ فَاِیَّایَ فَاعْبُدُوْنِ
يٰعِبَادِيَ : اے میرے بندو الَّذِيْنَ اٰمَنُوْٓا : جو ایمان لائے اِنَّ : بیشک اَرْضِيْ : میری زمین وَاسِعَةٌ : وسیع فَاِيَّايَ : پس میری ہی فَاعْبُدُوْنِ : پس تم عبادت کرو
اے میرے وہ بندو جو ایمان لائے ہو ! میری زمین بہت وسیع ہے پس عبادت تم میری ہی کرو
آیت 56 یٰعِبَادِیَ الَّذِیْنَ اٰمَنُوْٓا اِنَّ اَرْضِیْ وَاسِعَۃٌ فَاِیَّایَ فَاعْبُدُوْنِ ” قرآن کے اس اسلوب کے بارے میں ایک نکتہ جو پہلے کئی بار دہرایا جا چکا ہے یہاں پھر ذہن میں تازہ کرلیں کہ مکی دور میں اہل ایمان سے براہ راست بہت کم خطاب کیا گیا ہے ‘ زیادہ تر انہیں نبی مکرم ﷺ کی وساطت سے ہی مخاطب کیا گیا ہے ‘ جبکہ یٰٓاَیُّھَا الَّذِیْنَ اٰمَنُوْا کی اصطلاح صرف مدنی قرآن میں ملتی ہے۔ یہاں پر یٰعِبَادِیَ کے طرز تخاطب میں بہت شفقت اور عنایت کا اظہار پایا جاتا ہے کہ اے میرے بندو ! اگر مجھ پر ایمان لانے کی پاداش میں مکہ کی سرزمین میں تمہارا قافیہ تنگ کردیا گیا ہے ‘ تمہارے لیے اگر یہاں رہنا محال ہوگیا ہے اور ان حالات کا مقابلہ کرنے کے لیے مزید ہمت تم لوگوں میں نہیں رہی تو اپنے اس شہر کو چھوڑ دو ‘ کہیں اور چلے جاؤ ‘ میری زمین بہت وسیع ہے۔ اس آیت میں ہجرت کی طرف راہنمائی ہے اور ہجرت حبشہ اسی حکم کی روشنی میں وقوع پذیر ہوئی تھی۔ اب اگلی آیت میں چوتھی ہدایت کا ذکر ہے :
Top