Bayan-ul-Quran - Aal-i-Imraan : 104
وَ لْتَكُنْ مِّنْكُمْ اُمَّةٌ یَّدْعُوْنَ اِلَى الْخَیْرِ وَ یَاْمُرُوْنَ بِالْمَعْرُوْفِ وَ یَنْهَوْنَ عَنِ الْمُنْكَرِ١ؕ وَ اُولٰٓئِكَ هُمُ الْمُفْلِحُوْنَ
وَلْتَكُنْ : اور چاہیے رہے مِّنْكُمْ : تم سے (میں) اُمَّةٌ : ایک جماعت يَّدْعُوْنَ : وہ بلائے اِلَى : طرف الْخَيْرِ : بھلائی وَيَاْمُرُوْنَ : اور وہ حکم دے بِالْمَعْرُوْفِ : اچھے کاموں کا وَيَنْهَوْنَ : اور وہ روکے عَنِ الْمُنْكَرِ : برائی سے وَاُولٰٓئِكَ : اور یہی لوگ ھُمُ : وہ الْمُفْلِحُوْنَ : کامیاب ہونے والے
اور تم میں سے ایک جماعت ایسی ضرور ہونی چاہیے جو خیر کی طرف دعوت دے نیکی کا حکم دیتی رہے اور بدی سے روکتی رہے اور یہی لوگ فلاح پانے والے ہیں
آیت 104 وَلْتَکُنْ مِّنکُمْ اُمَّۃٌ یَّدْعُوْنَ اِلَی الْخَیْرِ وَیَاْمُرُوْنَ بالْمَعْرُوْفِ وَیَنْہَوْنَ عَنِ الْمُنْکَرِ ط اس جماعت کے کرنے کے تین کام بتائے گئے ہیں ‘ جن میں اوّلین دعوت الی الخیر ہے ‘ اور واضح رہے کہ سب سے بڑا خیر یہ قرآن ہے۔ وَاُولٰٓءِکَ ہُمُ الْمُفْلِحُوْنَ یہاں لفظ منکُمْ بڑا معنی خیز ہے کہ تم میں سے ایک ایسی امت وجود میں آنی چاہیے۔ گویا ایک تو بڑی امت ہے امت مسلمہ ‘ وہ تو ایک سو پچاس کروڑ نفوس پر مشتمل ہے ‘ جو خواب غفلت میں مدہوش ہیں ‘ اپنے منصب کو بھولے ہوئے ہیں ‘ دین سے دور ہیں۔ لہٰذا اس امت کے اندر ایک چھوٹی امت یعنی ایک جماعت وجود میں آئے جو جاگو اور جگاؤکا فریضہ سرانجام دے۔ اللہ نے تمہیں جاگنے کی صلاحیت دے دی ہے ‘ اب اوروں کو جگاؤ اور اس کے لیے طاقت فراہم کرو ‘ ایک منظم جماعت بناؤ ! فرمایا کہ یہی لوگ فلاح پانے والے ہیں۔ وہ بڑی امت جو کروڑوں افراد پر مشتمل ہے اور یہ کام نہیں کرتی وہ اگر فلاح اور نجات کی امید رکھتی ہے تو یہ ایک امید موہوم ہے۔ فلاح پانے والے صرف یہ لوگ ہوں گے جو تین کام کریں گے : i دعوت الی الخیر ii امر بالمعروف iii نہی عن المنکر۔ میں نے منہج انقلاب نبوی ﷺ کے مراحل و مدارج کے ضمن میں بھی یہ بات واضح کی ہے کہ اسلامی انقلاب کے لیے آخری اقدام بھی نہی عن المنکر بالیدہو گا۔ اس لیے کہ حدیث میں رسول اللہ ﷺ نے نہی عن المنکر کے تین مراتب بیان کیے ہیں۔ حضرت ابوسعید خدری رض سے روایت ہے کہ رسول اللہ ﷺ نے ارشاد فرمایا : مَنْ رَاٰی مِنْکُمْ مُنْکَرًا فَلْیُغَیِّرْہُ بِیَدِہٖ ‘ فَاِنْ لَمْ یَسْتَطِعْ فَبِلِسَانِہٖ ‘ فَاِنْ لَمْ یَسْتَطِعْ فَبِقَلْبِہٖ ‘ وَذٰلِکَ اَضْعَفُ الْاِیْمَانِ 1 تم میں سے جو کوئی کسی منکر کو دیکھے اس کا فرض ہے کہ اسے زور بازو سے روک ‘ دے۔ پس اگر اس کی طاقت نہیں ہے تو زبان سے روکے۔ پھر اگر اس کی بھی ہمت نہیں ہے تو دل میں برائی سے نفرت ضرور رکھے۔ اور یہ ایمان کا کمزور ترین درجہ ‘ ہے۔ اگر دل میں نفرت بھی ختم ہوگئی ہے تو سمجھ لو کہ متاع ایمان رخصت ہوگئی ہے۔ بقول اقبال : ؂ وائے ناکامی متاع کارواں جاتا رہا کارواں کے دل سے احساس زیاں جاتا رہا ! ہاں ‘ دل میں نفرت ہے تو اگلا قدم اٹھاؤ۔ زبان سے کہنا شروع کرو کہ بھائی یہ چیز غلط ہے ‘ اللہ نے اس کو حرام ٹھہرایا ہے ‘ یہ کام مت کرو۔ لیکن اس کے ساتھ ساتھ اپنی ایک طاقت بناتے جاؤ۔ ایک جماعت بناؤ ‘ قوت مجتمع کرو۔ جب وہ طاقت جمع ہوجائے تو پھر کھڑے ہوجاؤ کہ اب ہم یہ غلط کام نہیں کرنے دیں گے۔ پھر وہ ہوگا نہی عن المنکر بالید یعنی طاقت کے ساتھ برائی کو روک دینا۔ اور یہ ہوگا انقلاب کا آخری مرحلہ۔ تو ان تین آیات کے اندر عظیم ہدایت ہے ‘ انقلاب کا پورا لائحہ عمل موجود ہے ‘ بلکہ اسی میں منہج انقلاب نبوی ﷺ کا جو آخری اقدامی عمل ہے وہ بھی پوشیدہ ہے۔
Top