Bayan-ul-Quran - Aal-i-Imraan : 161
وَ مَا كَانَ لِنَبِیٍّ اَنْ یَّغُلَّ١ؕ وَ مَنْ یَّغْلُلْ یَاْتِ بِمَا غَلَّ یَوْمَ الْقِیٰمَةِ١ۚ ثُمَّ تُوَفّٰى كُلُّ نَفْسٍ مَّا كَسَبَتْ وَ هُمْ لَا یُظْلَمُوْنَ
وَمَا : اور نہیں كَانَ : تھا۔ ہے لِنَبِيٍّ : نبی کے لیے اَنْ يَّغُلَّ : کہ چھپائے وَمَنْ : اور جو يَّغْلُلْ : چھپائے گا يَاْتِ : لائے گا بِمَا غَلَّ : جو اس نے چھپایا يَوْمَ الْقِيٰمَةِ : قیامت کے دن ثُمَّ : پھر تُوَفّٰي : پورا پائے گا كُلُّ نَفْسٍ : ہر شخص مَّا : جو كَسَبَتْ : اس نے کمایا وَھُمْ : اور وہ لَا يُظْلَمُوْنَ : ظلم نہ کیے جائیں گے
اور کسی نبی کی یہ شان نہیں ہے کہ وہ خیانت کرے اور جو کوئی خیانت کرے گا تو وہ اپنی خیانت کی ہوئی چیز سمیت حاضر ہوگا قیامت کے دن پھر ہر جان کو پورا پورا دے دیا جائے گا جو کچھ اس نے کمایا ہوگا اور ان پر کچھ ظلم نہ ہوگا
آیت 161 وَمَا کَانَ لِنَبِیٍّ اَنْ یَّغُلَّ ط غَلَّ یَغُلُّ غُلُوْلًا کے معنی ہیں خیانت کرنا اور مال غنیمت میں سے کسی چیز کا چوری کرلینا ‘ جبکہ غَلَّ یَغِلُّ غلاًّ کے معنی دل میں کینہ ہونا کے ہیں۔ روایات میں آتا ہے کہ آنحضور ﷺ پر منافقوں نے الزام لگایا تھا کہ آپ ﷺ نے مال غنیمت میں کوئی خیانت کی ہے معاذ اللہ ‘ ثم معاذ اللہ ! یہ اس الزام کا جواب دیا جا رہا ہے کہ کسی نبی ﷺ ‘ کی شان نہیں ہے کہ وہ خیانت کا ارتکاب کرے۔ البتہ مولانا اصلاحی صاحب نے یہ رائے ظاہر کی ہے کہ اس لفظ کو صرف مالی خیانت کے ساتھ مخصوص کرنے کی کوئی دلیل نہیں۔ یہ دراصل منافقین کے اس الزام کی تردید ہے جو انہوں نے احد کی شکست کے بعد رسول اللہ ﷺ پر لگایا تھا کہ ہم نے تو اس شخص پر اعتماد کیا ‘ اس کے ہاتھ پر بیعت کی ‘ اپنے نیک و بد کا اس کو مالک بنایا ‘ لیکن یہ اس اعتماد سے بالکل غلط فائدہ اٹھا رہے ہیں اور ہمارے جان و مال کو اپنے ذاتی حوصلوں اور امنگوں کے لیے تباہ کر رہے ہیں۔ یہ عرب پر حکومت کرنا چاہتے ہیں اور اس مقصد کے لیے انہوں نے ہماری جانوں کو تختۂ مشق بنایا ہے۔ یہ صریحاً قوم کی بدخواہی اور اس کے ساتھ غداری و بےوفائی ہے۔ قرآن نے ان کے اس الزام کی تردید فرمائی ہے کہ تمہارا یہ الزام بالکل جھوٹ ہے ‘ کوئی نبی اپنی امت کے ساتھ کبھی بےوفائی اور بدعہدی نہیں کرتا۔ نبی جو قدم بھی اٹھاتا ہے رضائے الٰہی کی طلب میں اور اس کے احکام کے تحت اٹھاتا ہے۔ وَمَنْ یَّغْلُلْ یَاْتِ بِمَا غَلَّ یَوْمَ الْقِیٰمَۃِ ج اللہ تعالیٰ کے قانون جزا و سزا سے ایک نبی سے بڑھ کر کون باخبر ہوگا ؟ ثُمَّ تُوَفّٰی کُلُّ نَفْسٍ مَّا کَسَبَتْ وَہُمْ لاَ یُظْلَمُوْنَ نوٹ کیجیے لفظ تُوَفّٰییہاں بھی پور اپورا دیے جانے کے معنی میں آیا ہے۔
Top