Bayan-ul-Quran - Yaseen : 82
اِنَّمَاۤ اَمْرُهٗۤ اِذَاۤ اَرَادَ شَیْئًا اَنْ یَّقُوْلَ لَهٗ كُنْ فَیَكُوْنُ
اِنَّمَآ : اس کے سوا نہیں اَمْرُهٗٓ : اس کا کام اِذَآ : جب اَرَادَ شَيْئًا : وہ ارادہ کرے کسی شے کا اَنْ : کہ يَّقُوْلَ : وہ کہتا ہے لَهٗ : اس کو كُنْ : ہوجا فَيَكُوْنُ : تو وہ ہوجاتی ہے
اس کے امر کی شان تو یہ ہے کہ جب وہ کسی شے کا ارادہ کرلیتا ہے تو وہ اسے کہتا ہے ہوجا اور وہ ہوجاتی ہے
آیت 82 { اِنَّمَآ اَمْرُہٓٗ اِذَآ اَرَادَ شَیْئًا اَنْ یَّقُوْلَ لَہٗ کُنْ فَیَکُوْنُ } ”اس کے امر کی شان تو یہ ہے کہ جب وہ کسی شے کا ارادہ کرلیتا ہے تو وہ اسے کہتا ہے ہوجا اور وہ ہوجاتی ہے۔“ یہاں پر یہ اہم نکتہ نوٹ کرلیجیے کہ یہ ”عالم امر“ کا معاملہ ہے ‘ جبکہ عالم ِخلق کے قوانین مختلف ہیں۔ قرآن میں یہ آیت متعدد بار آئی ہے اور اسی مفہوم اور انہی الفاظ کے ساتھ آئی ہے۔ عالم امر اور عالم خلق کے بارے میں وضاحت سورة الاعراف کی آیت 54 کے ضمن میں کی جا چکی ہے۔ اس کا خلاصہ یہ ہے کہ عالم امر میں چیزوں کو وقوع پذیر ہونے کے لیے کوئی وقت درکار نہیں ‘ جبکہ عالم خلق میں تخلیق کے لیے وقت درکار ہوتا ہے۔ مثلاً اللہ تعالیٰ نے قرآن میں زمین و آسمان کی تخلیق کے بارے میں فرمایا ہے کہ ہم نے انہیں چھ دنوں میں بنایا۔ ان چھ دنوں سے مراد چھ ادوار Eras ہوسکتے ہیں۔ انہیں آپ میلینیم millennlums کہہ لیں۔ عین ممکن ہے کہ جس عرصہ کو یہاں ”دن“ کا نام دیا گیا ہے وہ لاکھوں برس پر محیط ہو۔ لیکن چھ دنوں کے ذکر سے یہ حقیقت تو بہرحال واضح ہوتی ہے کہ زمین و آسمان کی تخلیق میں کچھ وقت لگا۔ اس لیے کہ یہ ”عالم خلق“ کی تخلیق ہے۔ اس کے برعکس ”عالم ِامر“ میں ”وقت“ کا ّتکلف نہیں پایا جاتا۔ مثلاً روحِ انسانی اور فرشتوں کا تعلق عالم امر سے ہے ‘ اس لیے روح کو ایک جگہ سے دوسری جگہ پہنچنے کے لیے کوئی وقت درکار نہیں۔ اسی طرح حضرت جبریل امین علیہ السلام آنِ واحد میں عرش سے زمین پر آجاتے ہیں اور آنِ واحد میں زمین سے عرش پر پہنچ جاتے ہیں۔ چناچہ آیت زیر مطالعہ میں اللہ تعالیٰ کے امر کی خصوصی شان کا ذکر عالم امر کے حوالے سے ہوا ہے۔
Top