Bayan-ul-Quran - Az-Zumar : 31
ثُمَّ اِنَّكُمْ یَوْمَ الْقِیٰمَةِ عِنْدَ رَبِّكُمْ تَخْتَصِمُوْنَ۠   ۧ
ثُمَّ : پھر اِنَّكُمْ : بیشک تم يَوْمَ الْقِيٰمَةِ : قیامت کے دن عِنْدَ : پاس رَبِّكُمْ : اپنا رب تَخْتَصِمُوْنَ : تم جھگڑو گے
پھر تم قیامت کے دن اپنے رب کے پاس آپس میں جھگڑو گے
آیت 31 { ثُمَّ اِنَّکُمْ یَوْمَ الْقِیٰمَۃِ عِنْدَ رَبِّکُمْ تَخْتَصِمُوْنَ } ”پھر تم قیامت کے دن اپنے رب کے پاس آپس میں جھگڑو گے۔“ اس جھگڑے کی نوعیت کچھ یوں ہوگی کہ حضور ﷺ شہادت دیں گے کہ اے اللہ ! میں نے تیرا پیغام کما حقہ ان تک پہنچا دیا تھا۔ ممکن ہے وہاں ان میں سے کچھ لوگ انکار کریں کہ نہیں نہیں یہ بات ان تک نہیں پہنچی تھی اور بحث و تکرار کی نوبت آجائے۔ ابلاغِ رسالت کے بارے میں پیغمبروں کی گواہی اور متعلقہ امتوں کے افراد سے جواب طلبی کے حوالے سے سورة الاعراف کی یہ آیت بہت اہم ہے : { فَلَنَسْئَلَنَّ الَّذِیْنَ اُرْسِلَ اِلَیْہِمْ وَلَنَسْئَلَنَّ الْمُرْسَلِیْنَ } ”ہم ان سے بھی پوچھیں گے جن کی طرف رسولوں کو بھیجا گیا تھا اور ان سے بھی پوچھیں گے جنہیں رسول بنا کر بھیجا تھا“۔ چناچہ وہاں سب پیغمبروں سے پوچھا جائے گا کہ کیا آپ لوگوں نے ہمارا پیغام اپنی اپنی قوموں تک پہنچا دیا تھا ؟ جواب میں تمام پیغمبر گواہی دیں گے کہ اے اللہ ہم نے پہنچا دیا تھا۔ اسی لیے حضور اکرم ﷺ نے حجۃ الوداع کے موقع پر موجود لوگوں سے استفسار فرمایا تھا : اَلَا ھَلْ بَلَّغْتُکہ کیا میں نے اللہ کا پیغام تم لوگوں تک پہنچا دیا ؟ جواب میں پورے مجمعے نے یک زبان ہو کر کہا تھا : نَشْھَدُ اَنَّکَ قَدْ بَلَّغْتَ وَ اَدَّیْتَ وَنَصَحْتَ ! 1 کہ حضور ﷺ ہم گواہ ہیں کہ آپ ﷺ نے تبلیغ ‘ امانت اور نصیحت کا حق ادا کردیا ! اس کے بعد حضور ﷺ نے اپنی انگشت شہادت آسمان کی طرف اٹھائی اور اللہ تعالیٰ کو مخاطب کر کے کہا : اللَّھُمَّ اشْھَدْ ! اللَّھُمَّ اشْھَدْ ! اللَّھُمَّ اشْھَدْ ! کہ اے اللہ ! تو بھی گواہ رہ ‘ یہ لوگ تسلیم کر رہے ہیں کہ میں نے ان تک تیرا پیغام پہنچاد یا۔ اس کے بعد آپ ﷺ نے فرمایا : أَلَا لِیُبَلِّغِ الشَّاھِدُ الْغَائِبَ 2 کہ اب جو لوگ موجود ہیں ان کا فرض ہے کہ یہ پیغام ان لوگوں تک پہنچائیں جو یہاں موجود نہیں ہیں۔ اس طرح آپ ﷺ نے یہ فریضہ امت کی طرف منتقل فرما دیا۔ اللہ کے رسول ﷺ کے اس فرمان کے بعد یوں سمجھیں کہ اب یہ پوری امت اللہ کے رسول ﷺ کی رسول ہے سورة یٰسٓکی آیت 14 کے تحت اس اصطلاح کی وضاحت کی جا چکی ہے۔ یعنی اللہ کے رسول ﷺ نے جو پیغام ان تک پہنچایا ہے اب انہوں نے اسے پوری نوع انسانی تک پہنچانا ہے۔ حضور ﷺ کی امت کے اس اعزاز اور فریضہ کا ذکر اللہ تعالیٰ نے قرآن مجید میں دو مقامات پر فرمایا ہے ‘ ہجرت سے متصلاً قبل سورة الحج میں اور ہجرت سے متصلاً بعد سورة البقرۃ میں۔ سورة الحج کی آخری آیت میں یوں فرمایا : { ہُوَ اجْتَبٰـٹکُمْ وَمَا جَعَلَ عَلَیْکُمْ فِی الدِّیْنِ مِنْ حَرَجٍط مِلَّۃَ اَبِیْکُمْ اِبْرٰہِیْمَط ہُوَ سَمّٰٹکُمُ الْمُسْلِمِیْنَ 5 مِنْ قَـبْلُ وَفِیْ ہٰذَا لِیَکُوْنَ الرَّسُوْلُ شَہِیْدًا عَلَیْکُمْ وَتَـکُوْنُوْا شُہَدَآئَ عَلَی النَّاسِج } ”اس نے تمہیں چن لیا ہے اور دین کے معاملے میں تم پر کوئی تنگی نہیں رکھی۔ قائم ہو جائو اپنے جد امجد ابراہیم علیہ السلام کی ملت پر۔ اسی نے تمہارا نام مسلم رکھا ‘ اس سے پہلے بھی تمہارا یہی نام تھا اور اس کتاب میں بھی ‘ تاکہ پیغمبر تم پر گواہ ہوں اور تم لوگوں پر گواہ ہو“۔ سورة البقرۃ میں اسی مضمون کو ان الفاظ میں پھر سے دہرایا گیا : { وَکَذٰلِکَ جَعَلْنٰکُمْ اُمَّۃً وَّسَطًا لِّتَکُوْنُوْا شُہَدَآئَ عَلَی النَّاسِ وَیَکُوْنَ الرَّسُوْلُ عَلَیْکُمْ شَہِیْدًاط } آیت 143 ”اور اے مسلمانو ! اسی طرح تو ہم نے تمہیں ایک امت وسط بنایا ہے ‘ تاکہ تم لوگوں پر گواہ ہو اور رسول تم پر گواہ ہو“۔ دونوں مقامات پر الفاظ ایک سے آئے ہیں صرف الفاظ کی ترتیب تبدیل ہوئی ہے۔
Top