Bayan-ul-Quran - An-Nisaa : 49
اَلَمْ تَرَ اِلَى الَّذِیْنَ یُزَكُّوْنَ اَنْفُسَهُمْ١ؕ بَلِ اللّٰهُ یُزَكِّیْ مَنْ یَّشَآءُ وَ لَا یُظْلَمُوْنَ فَتِیْلًا
اَلَمْ تَرَ : کیا تم نے نہیں دیکھا اِلَى : طرف (کو) الَّذِيْنَ : وہ جو کہ يُزَكُّوْنَ : پاک۔ مقدس کہتے ہیں اَنْفُسَھُمْ : اپنے آپ کو بَلِ : بلکہ اللّٰهُ : اللہ يُزَكِّيْ : مقدس بناتا ہے مَنْ : جسے يَّشَآءُ : وہ چاہتا ہے وَلَا يُظْلَمُوْنَ : اور ان پر ظلم نہ ہوگا فَتِيْلًا : دھاگے برابر
کیا تم نے دیکھا نہیں ان لوگوں کو جو اپنے آپ کو بڑا پاکیزہ ٹھہراتے ہیں ؟ بلکہ اللہ تعالیٰ ہی ہے جو پاک کرتا ہے جس کو چاہتا ہے اور ان پر ذرا بھی ظلم نہیں کیا جائے گا
آیت 49 اَلَمْ تَرَ اِلَی الَّذِیْنَ یُزَکُّوْنَ اَنْفُسَہُمْ ط یہاں یہود کے اسی فلسفے کی طرف اشارہ ہے کہ وہ اپنے آپ کو بہت پاک باز اور اعلیٰ وارفع سمجھتے ہیں۔ ان کا دعویٰ ہے کہ We are the chosen people of the Lord“۔ سورة المائدۃ میں ان کا یہ قول نقل ہوا ہے : نَحْنُ اَبْنآؤُا اللّٰہِ وَاَحِبَّاؤُہٗ آیت 18 یعنی ہم تو اللہ کے بیٹوں کی طرح ہیں بلکہ اس کے بہت ہی چہیتے اور لاڈلے ہیں۔ ان کے نزدیک دوسرے تمام لوگ Goyems اور Gentiles ہیں ‘ جو دیکھنے میں انسان نظر آتے ہیں ‘ حقیقت میں حیوان ہیں۔ ان کو تو جس طرح چاہو لوٹ کر کھا جاؤ ‘ جس طرح سے چاہو ان کو دھوکہ دو ‘ ان کا استحاصل کرو ‘ ہم پر کوئی گرفت نہیں ہے۔ سورة آل عمران میں ہم ان کا قول پڑھ چکے ہیں : لَیْسَ عَلَیْنَا فِی الْاُمِّیّٖنَ سَبِیْلٌ ج آیت 75 انّ اُمیوں کے معاملے میں ہم پر کوئی گرفت نہیں ہے“۔ ہم سے ان کے بارے میں کوئی محاسبہ اور کوئی مؤاخذہ نہیں ہوگا۔ جیسے آپ نے گھوڑے کو ٹانگے میں جوت لیا یا ہرن کا شکار کر کے کھالیا تو آپ سے اس پر کون مؤاخذہ کرے گا ؟ بَلِ اللّٰہُ یُزَکِّیْ مَنْ یَّشَآءُ وَلاَ یُظْلَمُوْنَ فَتِیْلاً ان کو اگر پاکیزگی نہیں ملتی تو اس کا سبب ان کے اپنے کرتوت ہیں ‘ اللہ تعالیٰ کی طرف سے تو ان پر ذرا بھی ظلم نہیں کیا جاتا۔ فَتِیل دراصل اس دھاگے کو کہتے ہیں جو کھجور کے اندر گٹھلی کے ساتھ لگا ہوا ہوتا ہے۔ نزول قرآن کے زمانے میں جو چھوٹی سے چھوٹی چیزیں لوگوں کے مشاہدے میں آتی تھیں ظاہر ہے کہ وہیں سے کسی چیز کے چھوٹا ہونے کے لیے مثال پیش کی جاسکتی تھی۔
Top