Bayan-ul-Quran - An-Nisaa : 68
وَّ لَهَدَیْنٰهُمْ صِرَاطًا مُّسْتَقِیْمًا
وَّ : اور لَهَدَيْنٰھُمْ : ہم انہیں ہدایت دیتے صِرَاطًا : راستہ مُّسْتَقِيْمًا : سیدھا
اور انہیں ہدایت فرما دیتے سیدھی راہ کی طرف
آیت 68 وَّلَہَدَیْنٰہُمْ صِرَاطًا مُّسْتَقِیْمًا اکثر مفسرین نے اس آیت کے الفاظ کو ان کے ظاہری معنی پر محمول کیا ہے۔ یعنی اگر اللہ تعالیٰ حکم دے کہ اپنے آپ کو قتل کرو ‘ خود کشی کرو ‘ تو ہمیں یہ کرنا ہوگی۔ اگر اللہ تعالیٰ حکم دے کہ اپنے گھروں سے نکل جاؤ تو نکلنا ہوگا۔ اللہ تعالیٰ ہمارا خالق ومالک ہے۔ اس کی طرف سے دیا گیا ہر حکم واجب التعمیل ہے۔ البتہ اَنِ اقْتُلُوْآ اَنْفُسَکُمْ کے الفاظ میں ایک مزید اشارہ بھی معلوم ہوتا ہے۔ سورة البقرۃ آیت 54 میں ہم تاریخ بنی اسرائیل کے حوالے سے پڑھ آئے ہیں کہ بنی اسرائیل میں سے جن لوگوں نے بچھڑے کی پرستش کی تھی ان کو مرتد ہونے کی جو سزا دی گئی تھی اس کے لیے یہی الفاظ آئے تھے : فَاقْتُلُوْآ اَنْفُسَکُمْ پس قتل کرو اپنے آپ کو“۔ اس سے مراد یہ ہے کہ تم اپنے اپنے قبیلے کے ان لوگوں کو قتل کرو جنہوں نے اس کفر و شرک کا ارتکاب کیا ہے۔ منافقین کا معاملہ یہ تھا کہ ان کی حمایت میں اکثر و بیشتر ان کے خاندان والے ‘ رشتہ دار ‘ ان کے گھرانے والے ان کے ساتھ شامل ہوجاتے تھے۔ تو یہاں شاید یہ بتایا جا رہا ہے کہ بجائے اس کے کہ تم ان کی حمایت کرو ‘ تمہارا طرز عمل اس کے بالکل برعکس ہونا چاہیے کہ تم اپنے اندر سے خود دیکھو کہ کون منافق ہیں جو اصل میں آستین کے سانپ ہیں۔ اگرچہ اللہ تعالیٰ نے تمہیں یہ حکم نہیں دیا ‘ مگر وہ یہ حکم بھی دے سکتا تھا کہ ہر گھرانہ اپنے ہاں کے منافقین کو خود قتل کرے۔ یہ تو حضرت عمر رض نے اپنی غیرت ایمانی کی وجہ سے اس منافق کو قتل کیا تھا ‘ جبکہ اس منافق کے خاندان کے لوگ حضرت عمر رض پر قتل کا دعویٰ کر رہے تھے۔ اگر اللہ تعالیٰ یہ حکم دیتا تو یہ بھی تمہیں کرنا چاہیے تھا ‘ لیکن یہ اللہ کے علم میں ہے کہ تم میں سے بہت کم لوگ ہوتے جو اس حکم کی تعمیل کرتے۔ اور اگر وہ یہ کر گزرتے تو یہ ان کے حق میں بہتر ہوتا اور ان کے ثبات قلبی اور ثبات ایمانی کا باعث ہوتا۔ اس صورت میں اللہ تعالیٰ انہیں خاص اپنے پاس سے اجر عظیم عطا فرماتا اور انہیں صراط مستقیم کی ہدایت عطا فرماتا۔ اب جو آیت آرہی ہے یہ اطاعت رسول کے موضوع پر قرآن حکیم کی عظیم ترین آیت ہے۔
Top