Bayan-ul-Quran - An-Nisaa : 82
اَفَلَا یَتَدَبَّرُوْنَ الْقُرْاٰنَ١ؕ وَ لَوْ كَانَ مِنْ عِنْدِ غَیْرِ اللّٰهِ لَوَجَدُوْا فِیْهِ اخْتِلَافًا كَثِیْرًا
اَفَلَا يَتَدَبَّرُوْنَ : پھر کیا وہ غور نہیں کرتے الْقُرْاٰنَ : قرآن وَلَوْ كَانَ : اور اگر ہوتا مِنْ : سے عِنْدِ : پاس غَيْرِ اللّٰهِ : اللہ کے سوا لَوَجَدُوْا : ضرور پاتے فِيْهِ : اس میں اخْتِلَافًا : اختلاف كَثِيْرًا : بہت
کیا یہ قرآن پر تدبر نہیں کرتے ؟ تو اس میں وہ بہت سے تضادات پاتے
آیت 82 اَفَلاَ یَتَدَبَّرُوْنَ الْقُرْاٰنَ ط یہ قرآن پڑھتے بھی ہیں اور سنتے بھی ہیں ‘ لیکن اس پر غور و فکر نہیں کرتے۔ نمازیں تو وہ پڑھتے تھے۔ اس وقت جو بھی منافق تھا اسے نماز تو پڑھنی پڑتی تھی ‘ ورنہ اس کو مسلمان نہ مانا جاتا۔ آج تو مسلمان مانے جانے کے لیے نماز ضروری نہیں ہے ‘ اس وقت تو ضروری تھی۔ بلکہ رئیس المنافقین عبداللہ بن ابی تو پہلی صف میں ہوتا تھا اور جمعہ کے روز تو خاص طور پر خطبے سے پہلے کھڑے ہو کر اعلان کرتا تھا کہ لوگو ان کی بات توجہ سے سنو ‘ یہ اللہ کے رسول ہیں۔ گویا اپنی چودھراہٹ کے اظہار کے لیے یہ انداز اختیار کرتا۔ تو وہ نمازیں پڑھتے تھے ‘ قرآن سنتے تھے ‘ لیکن قرآن پر تدبر نہیں کرتے تھے۔ قرآن ان کے سروں کے اوپر سے گزر رہا تھا۔ یا ان کے ایک کان سے داخل ہو کر دوسرے کان سے نکل جاتا تھا۔ وَلَوْ کَانَ مِنْ عِنْدِ غَیْرِ اللّٰہِ لَوَجَدُوْا فِیْہِ اخْتِلاَفًا کَثِیْرًا ۔ اس پر غور کرو ‘ یہ بہت مربوط کلام ہے۔ اس کا پورا فلسفہ منطقی طور پر بہت مربوط ہے ‘ اس کے اندر کہیں کوئی تضاد نہیں ہے۔
Top