Bayan-ul-Quran - Az-Zukhruf : 48
وَ مَا نُرِیْهِمْ مِّنْ اٰیَةٍ اِلَّا هِیَ اَكْبَرُ مِنْ اُخْتِهَا١٘ وَ اَخَذْنٰهُمْ بِالْعَذَابِ لَعَلَّهُمْ یَرْجِعُوْنَ
وَمَا نُرِيْهِمْ : اور نہیں ہم دکھاتے ان کو مِّنْ اٰيَةٍ : کوئی نشانی اِلَّا هِىَ اَكْبَرُ : مگر وہ زیادہ بڑی ہوتی تھی مِنْ اُخْتِهَا : اپنی بہن سے وَاَخَذْنٰهُمْ : اور پکڑ لیا ہم نے ان کو بِالْعَذَابِ : عذاب میں۔ ساتھ عذاب کے لَعَلَّهُمْ يَرْجِعُوْنَ : تاکہ وہ لوٹ آئیں
اور نہیں دکھاتے تھے ہم انہیں کوئی نشانی مگر وہ اپنی بہن (اپنے جیسی پہلی نشانی) سے زیادہ بڑی ہوتی تھی اور ہم انہیں پکڑتے رہے اس عذاب کے ذریعے شاید کہ وہ باز آجائیں
آیت 48 { وَمَا نُرِیْہِمْ مِّنْ اٰیَۃٍ اِلَّا ہِیَ اَکْبَرُ مِنْ اُخْتِہَا } ”اور نہیں دکھاتے تھے ہم انہیں کوئی نشانی مگر وہ اپنی بہن اپنے جیسی پہلی نشانی سے زیادہ بڑی ہوتی تھی“ یعنی ہم ان کو ایک سے ایک بڑھ کر نشانیاں دکھاتے رہے۔ یہ حضرت موسیٰ علیہ السلام کو دی گئی مزید سات نشانیوں کی طرف اشارہ ہے۔ ان میں ایک بہت بڑی نشانی حضرت موسیٰ علیہ السلام کا جادوگروں سے مقابلہ تھا ‘ جس میں شکست کھا کر وہ ایمان لے آئے۔ مزید برآں مصر میں شدید قحط ‘ ہولناک طوفانِ باد و باراں ‘ ٹڈی دل کا خوفناک حملہ ‘ چچڑیوں اور کھٹملوں کی بہتات ‘ مینڈکوں کا امڈا ہو اسیلاب ‘ کنوئوں اور چشموں کے پانی کا خون میں تبدیل ہوجانا ‘ ایسی نشانیاں تھیں جن کا ظہور یکے بعد دیگرے حضرت موسیٰ علیہ السلام کے پیشگی اعلان کے بعد ہوتا اور آنے والی آفت اس وقت تک نہ ٹلتی جب تک حضرت موسیٰ علیہ السلام اسے ٹالنے کے لیے اللہ تعالیٰ سے دعا نہ کرتے۔ ان نشانیوں کا ذکر سورة الاعراف کے سولہویں رکوع میں ہوا ہے۔ { وَاَخَذْنٰہُمْ بِالْعَذَابِ لَعَلَّہُمْ یَرْجِعُوْنَ } ”اور ہم انہیں پکڑتے رہے اس عذاب کے ذریعے ‘ شاید کہ وہ باز آجائیں۔“ یہ اللہ تعالیٰ کا ایک خاص اصول اور قانون ہے کہ لوگوں کو راہ راست پر لانے کے لیے بڑے عذاب سے پہلے ان پر چھوٹے چھوٹے عذاب بھیجے جاتے ہیں۔ اس اصول کا ذکر سورة السجدۃ میں اس طرح ہوا ہے : { وَلَنُذِیْقَنَّہُمْ مِّنَ الْعَذَابِ الْاَدْنٰی دُوْنَ الْعَذَابِ الْاَکْبَرِ لَعَلَّہُمْ یَرْجِعُوْنَ۔ } ”اور ہم لازماً چکھائیں گے انہیں مزہ چھوٹے عذاب کا بڑے عذاب سے پہلے ‘ شاید کہ یہ لوگ پلٹ آئیں“۔ نوٹ کیجیے ان دونوں آیات کے اختتامی الفاظ ایک سے ہیں۔
Top