Home
Quran
Recite by Surah
Recite by Ruku
Translation
Maududi - Urdu
Jalandhary - Urdu
Junagarhi - Urdu
Taqi Usmani - Urdu
Saheeh Int - English
Maududi - English
Tafseer
Tafseer Ibn-e-Kaseer
Tafheem-ul-Quran
Maarif-ul-Quran
Tafseer-e-Usmani
Aasan Quran
Ahsan-ul-Bayan
Tibyan-ul-Quran
Tafseer-Ibne-Abbas
Tadabbur-e-Quran
Show All Tafaseer
Word by Word
Nazar Ahmed - Surah
Nazar Ahmed - Ayah
Farhat Hashmi - Surah
Farhat Hashmi - Ayah
Word by Word English
Hadith
Sahih Bukhari
Sahih Muslim
Sunan Abu Dawood
Sunan An-Nasai
Sunan At-Tirmadhi
Sunan Ibne-Majah
Mishkaat Shareef
Mauwatta Imam Malik
Musnad Imam Ahmad
Maarif-ul-Hadith
Riyad us Saaliheen
Android Apps
IslamOne
QuranOne
Tafseer Ibne-Kaseer
Maariful Quran
Tafheem-ul-Quran
Quran Urdu Translations
Quran Word by Word
Sahih Bukhari
Sahih Muslim
Mishkaat Shareef
More Apps...
More
Seerat-un-Nabi ﷺ
Fiqhi Masail
Masnoon Azkaar
Change Font Size
About Us
View Ayah In
Navigate
Surah
1 Al-Faatiha
2 Al-Baqara
3 Aal-i-Imraan
4 An-Nisaa
5 Al-Maaida
6 Al-An'aam
7 Al-A'raaf
8 Al-Anfaal
9 At-Tawba
10 Yunus
11 Hud
12 Yusuf
13 Ar-Ra'd
14 Ibrahim
15 Al-Hijr
16 An-Nahl
17 Al-Israa
18 Al-Kahf
19 Maryam
20 Taa-Haa
21 Al-Anbiyaa
22 Al-Hajj
23 Al-Muminoon
24 An-Noor
25 Al-Furqaan
26 Ash-Shu'araa
27 An-Naml
28 Al-Qasas
29 Al-Ankaboot
30 Ar-Room
31 Luqman
32 As-Sajda
33 Al-Ahzaab
34 Saba
35 Faatir
36 Yaseen
37 As-Saaffaat
38 Saad
39 Az-Zumar
40 Al-Ghaafir
41 Fussilat
42 Ash-Shura
43 Az-Zukhruf
44 Ad-Dukhaan
45 Al-Jaathiya
46 Al-Ahqaf
47 Muhammad
48 Al-Fath
49 Al-Hujuraat
50 Qaaf
51 Adh-Dhaariyat
52 At-Tur
53 An-Najm
54 Al-Qamar
55 Ar-Rahmaan
56 Al-Waaqia
57 Al-Hadid
58 Al-Mujaadila
59 Al-Hashr
60 Al-Mumtahana
61 As-Saff
62 Al-Jumu'a
63 Al-Munaafiqoon
64 At-Taghaabun
65 At-Talaaq
66 At-Tahrim
67 Al-Mulk
68 Al-Qalam
69 Al-Haaqqa
70 Al-Ma'aarij
71 Nooh
72 Al-Jinn
73 Al-Muzzammil
74 Al-Muddaththir
75 Al-Qiyaama
76 Al-Insaan
77 Al-Mursalaat
78 An-Naba
79 An-Naazi'aat
80 Abasa
81 At-Takwir
82 Al-Infitaar
83 Al-Mutaffifin
84 Al-Inshiqaaq
85 Al-Burooj
86 At-Taariq
87 Al-A'laa
88 Al-Ghaashiya
89 Al-Fajr
90 Al-Balad
91 Ash-Shams
92 Al-Lail
93 Ad-Dhuhaa
94 Ash-Sharh
95 At-Tin
96 Al-Alaq
97 Al-Qadr
98 Al-Bayyina
99 Az-Zalzala
100 Al-Aadiyaat
101 Al-Qaari'a
102 At-Takaathur
103 Al-Asr
104 Al-Humaza
105 Al-Fil
106 Quraish
107 Al-Maa'un
108 Al-Kawthar
109 Al-Kaafiroon
110 An-Nasr
111 Al-Masad
112 Al-Ikhlaas
113 Al-Falaq
114 An-Naas
Ayah
1
2
3
4
5
6
7
8
9
10
11
12
13
14
15
16
17
18
19
20
21
22
23
24
25
26
27
28
29
Get Android App
Tafaseer Collection
تفسیر ابنِ کثیر
اردو ترجمہ: مولانا محمد جوناگڑہی
تفہیم القرآن
سید ابو الاعلیٰ مودودی
معارف القرآن
مفتی محمد شفیع
تدبرِ قرآن
مولانا امین احسن اصلاحی
احسن البیان
مولانا صلاح الدین یوسف
آسان قرآن
مفتی محمد تقی عثمانی
فی ظلال القرآن
سید قطب
تفسیرِ عثمانی
مولانا شبیر احمد عثمانی
تفسیر بیان القرآن
ڈاکٹر اسرار احمد
تیسیر القرآن
مولانا عبد الرحمٰن کیلانی
تفسیرِ ماجدی
مولانا عبد الماجد دریابادی
تفسیرِ جلالین
امام جلال الدین السیوطی
تفسیرِ مظہری
قاضی ثنا اللہ پانی پتی
تفسیر ابن عباس
اردو ترجمہ: حافظ محمد سعید احمد عاطف
تفسیر القرآن الکریم
مولانا عبد السلام بھٹوی
تفسیر تبیان القرآن
مولانا غلام رسول سعیدی
تفسیر القرطبی
ابو عبدالله القرطبي
تفسیر درِ منثور
امام جلال الدین السیوطی
تفسیر مطالعہ قرآن
پروفیسر حافظ احمد یار
تفسیر انوار البیان
مولانا عاشق الٰہی مدنی
معارف القرآن
مولانا محمد ادریس کاندھلوی
جواھر القرآن
مولانا غلام اللہ خان
معالم العرفان
مولانا عبدالحمید سواتی
مفردات القرآن
اردو ترجمہ: مولانا عبدہ فیروزپوری
تفسیرِ حقانی
مولانا محمد عبدالحق حقانی
روح القرآن
ڈاکٹر محمد اسلم صدیقی
فہم القرآن
میاں محمد جمیل
مدارک التنزیل
اردو ترجمہ: فتح محمد جالندھری
تفسیرِ بغوی
حسین بن مسعود البغوی
احسن التفاسیر
حافظ محمد سید احمد حسن
تفسیرِ سعدی
عبدالرحمٰن ابن ناصر السعدی
احکام القرآن
امام ابوبکر الجصاص
تفسیرِ مدنی
مولانا اسحاق مدنی
مفہوم القرآن
محترمہ رفعت اعجاز
اسرار التنزیل
مولانا محمد اکرم اعوان
اشرف الحواشی
شیخ محمد عبدالفلاح
انوار البیان
محمد علی پی سی ایس
بصیرتِ قرآن
مولانا محمد آصف قاسمی
مظہر القرآن
شاہ محمد مظہر اللہ دہلوی
تفسیر الکتاب
ڈاکٹر محمد عثمان
سراج البیان
علامہ محمد حنیف ندوی
کشف الرحمٰن
مولانا احمد سعید دہلوی
بیان القرآن
مولانا اشرف علی تھانوی
عروۃ الوثقٰی
علامہ عبدالکریم اسری
معارف القرآن انگلش
مفتی محمد شفیع
تفہیم القرآن انگلش
سید ابو الاعلیٰ مودودی
Bayan-ul-Quran - Al-Fath : 29
مُحَمَّدٌ رَّسُوْلُ اللّٰهِ١ؕ وَ الَّذِیْنَ مَعَهٗۤ اَشِدَّآءُ عَلَى الْكُفَّارِ رُحَمَآءُ بَیْنَهُمْ تَرٰىهُمْ رُكَّعًا سُجَّدًا یَّبْتَغُوْنَ فَضْلًا مِّنَ اللّٰهِ وَ رِضْوَانًا١٘ سِیْمَاهُمْ فِیْ وُجُوْهِهِمْ مِّنْ اَثَرِ السُّجُوْدِ١ؕ ذٰلِكَ مَثَلُهُمْ فِی التَّوْرٰىةِ١ۛۖۚ وَ مَثَلُهُمْ فِی الْاِنْجِیْلِ١ۛ۫ۚ كَزَرْعٍ اَخْرَجَ شَطْئَهٗ فَاٰزَرَهٗ فَاسْتَغْلَظَ فَاسْتَوٰى عَلٰى سُوْقِهٖ یُعْجِبُ الزُّرَّاعَ لِیَغِیْظَ بِهِمُ الْكُفَّارَ١ؕ وَعَدَ اللّٰهُ الَّذِیْنَ اٰمَنُوْا وَ عَمِلُوا الصّٰلِحٰتِ مِنْهُمْ مَّغْفِرَةً وَّ اَجْرًا عَظِیْمًا۠ ۧ
مُحَمَّدٌ
: محمد
رَّسُوْلُ اللّٰهِ ۭ
: اللہ کے رسول
وَالَّذِيْنَ
: اور جو لوگ
مَعَهٗٓ
: ان کے ساتھ
اَشِدَّآءُ
: بڑے سخت
عَلَي الْكُفَّارِ
: کافروں پر
رُحَمَآءُ
: رحم دل
بَيْنَهُمْ
: آپس میں
تَرٰىهُمْ
: تو انہیں دیکھے گا
رُكَّعًا
: رکوع کرتے
سُجَّدًا
: سجدہ ریز ہوتے
يَّبْتَغُوْنَ
: وہ تلاش کرتے ہیں
فَضْلًا
: فضل
مِّنَ اللّٰهِ
: اللہ سے، کا
وَرِضْوَانًا ۡ
: اور رضا مندی
سِيْمَاهُمْ
: ان کی علامت
فِيْ وُجُوْهِهِمْ
: ان کے چہروں میں
مِّنْ
: سے
اَثَرِ السُّجُوْدِ ۭ
: سجدوں کا اثر
ذٰلِكَ
: یہ
مَثَلُهُمْ
: انکی مثال (صفت)
فِي التَّوْرٰىةِ
: توریت میں
وَمَثَلُهُمْ
: اور انکی مثال (صفت)
فِي الْاِنْجِيْلِ ۾
: انجیل میں
كَزَرْعٍ
: جیسے ایک کھیتی
اَخْرَجَ
: اس نے نکالی
شَطْئَهٗ
: اپنی سوئی
فَاٰزَرَهٗ
: پھر اسے قوی کیا
فَاسْتَغْلَظَ
: پھر وہ موٹی ہوئی
فَاسْتَوٰى
: پھر وہ کھڑی ہوگئی
عَلٰي سُوْقِهٖ
: اپنی جڑ (نال) پر
يُعْجِبُ
: وہ بھلی لگتی ہے
الزُّرَّاعَ
: کسان (جمع)
لِيَغِيْظَ
: تاکہ غصہ میں لائے
بِهِمُ
: ان سے
الْكُفَّارَ ۭ
: کافروں
وَعَدَ اللّٰهُ
: وعدہ کیا اللہ نے
الَّذِيْنَ
: ان سے جو
اٰمَنُوْا
: ایمان لائے
وَعَمِلُوا
: اور انہوں نے اعمال کئے
الصّٰلِحٰتِ
: اچھے
مِنْهُمْ
: ان میں سے
مَّغْفِرَةً
: مغفرت
وَّاَجْرًا عَظِيْمًا
: اور اجر عظیم
محمد ﷺ اللہ کے رسول ہیں۔ اور جو ان کے ساتھ ہیں وہ کافروں پر بہت بھاری اور آپس میں بہت رحم دل ہیں تم دیکھو گے انہیں رکوع کرتے ہوئے سجدہ کرتے ہوئے وہ (ہر آن) اللہ کے فضل اور اس کی رضا کے متلاشی رہتے ہیں ان کی پہچان ان کے چہروں پر (ظاہر) ہے سجدوں کے اثرات کی وجہ سے یہ ہے ان کی مثال تورات میں اور انجیل میں ان کی مثال یوں ہے کہ جیسے ایک کھیتی ہو جس نے نکالی اپنی کو نپل پھر اس کو تقویت دی پھر وہ سخت ہوئی پھر وہ اپنے تنے پر کھڑی ہوگئی یہ کا شتکار کو بڑی بھلی لگتی ہے تاکہ ان سے کافروں کے دل جلائے } اللہ نے وعدہ کیا ہے ان لوگوں سے جو ان میں سے ایمان لائے اور انہوں نے نیک اعمال کیے مغفرت اور اجر عظیم کا
آیت 29 { مُحَمَّدٌ رَّسُوْلُ اللّٰہِ وَالَّذِیْنَ مَعَہٓٗ اَشِدَّآئُ عَلَی الْکُفَّارِ رُحَمَآئُ بَیْنَہُمْ } ”محمد ﷺ اللہ کے رسول ہیں۔ اور جو ان کے ساتھ ہیں ‘ وہ کافروں پر بہت بھاری اور آپس میں بہت رحم دل ہیں“ آیت کے اس ٹکڑے کا ترجمہ دو طرح سے کیا جاتا ہے۔ اگر پہلا فقرہ مُحَمَّدٌ رَّسُوْلُ اللّٰہِط پر مکمل کردیا جائے اور وَالَّذِیْنَ سے دوسرا فقرہ شروع کیا جائے تو آیت کا مفہوم وہی ہوگا جو اوپر ترجمے میں اختیار کیا گیا ہے۔ یعنی یہ کہ محمد ﷺ اللہ کے رسول ہیں۔ اور جو ان کے ساتھی ہیں وہ کفار پر بہت بھاری اور آپس میں بہت رحم دل ہیں۔ لیکن اگر پہلے فقرے کو وَالَّذِیْنَ مَعَہٓٗ تک پڑھا جائے تو اس کا مفہوم یہ ہوگا کہ اللہ کے رسول محمد ﷺ اور آپ ﷺ کے ساتھی ایک وحدت اور ایک جماعت ہیں۔ اس طرح دوسرے فقرے میں بیان کی گئی دو خصوصیات اس جماعت کی خصوصیات قرار پائیں گی۔ یعنی اللہ کے رسول ﷺ اور آپ ﷺ کے ساتھی کفار پر بہت بھاری اور آپس میں بہت شفیق و مہربان ہیں۔ اہل ایمان کی اس شان کا ذکر زیر مطالعہ آیت کے علاوہ سورة المائدۃ آیت 54 میں بھی ہوا ہے۔ وہاں مومنین صادقین کا ذکر کرتے ہوئے فرمایا گیا : { اَذِلَّۃٍ عَلَی الْمُؤْمِنِیْنَ اَعِزَّۃٍ عَلَی الْکٰفِرِیْنَز } ”وہ اہل ایمان کے حق میں بہت نرم ہوں گے ‘ کافروں پر بہت بھاری ہوں گے“۔ علامہ اقبالؔ نے اپنے اس شعر میں اسی مضمون کی ترجمانی کی ہے : ؎ ہو حلقہ یاراں تو بریشم کی طرح نرم رزم حق و باطل ہو تو فولاد ہے مومن ! یہاں پر یہ نکتہ بھی لائق توجہ ہے کہ یہ آیت بیعت کے تذکرے کے بعد آئی ہے۔ اس ترتیب سے گویا یہ یاددہانی کرانا مقصود ہے کہ { مُحَمَّدٌ رَّسُوْلُ اللّٰہِط وَالَّذِیْنَ مَعَہٓٗ } کے الفاظ میں جس جماعت کا ذکر ہوا ہے وہ بیعت کی بنیاد پر وجود میں آئی تھی۔ اس حوالے سے حضور ﷺ کی سیرت سے جو تفصیلات ملتی ہیں ان سے ثابت ہوتا ہے کہ جو شخص آپ ﷺ پر ایمان لاتا ‘ آپ ﷺ اس سے بیعت لیتے تھے ‘ یہ ایمان کی بیعت تھی۔ لیکن سیرت کے مطالعے سے یہ بھی پتا چلتا ہے کہ اہل مکہ میں سے آپ ﷺ نے کسی سے ایمان کی بیعت کبھی نہیں لی ‘ بلکہ اہل مکہ میں سے جو کوئی ایمان لانا چاہتا وہ کلمہ شہادت پڑھتا اور بس حلقہ اسلام میں داخل ہوجاتا۔ اس کے لیے کسی علامتی اقدام کی کبھی کوئی ضرورت محسوس نہیں کی گئی۔ ہاں اگر کوئی شخص باہر سے آتا تو اس سے آپ ﷺ ایمان کی بیعت لیتے تھے۔ اس کے علاوہ مکی دور میں آپ ﷺ نے دو بیعتوں کا خصوصی طور پر اہتمام فرمایا تھا۔ یعنی بیعت عقبہ اولیٰ اور بیعت عقبہ ثانیہ۔ ان میں بیعت عقبہ ثانیہ وہ بیعت ہے جس کی بنیاد پر مسلمان باقاعدہ ایک ”جماعت“ بنے تھے۔ اس بات کی گواہی اس بیعت کے الفاظ بھی دیتے ہیں۔ یہ الفاظ ایک متفق علیہ روایت کے مطابق حضرت عبادہ بن صامت رض سے اس طرح نقل ہوئے ہیں : بَایَعْنَا رَسُولَ اللّٰہِ ﷺ عَلَی السَّمْعِ وَالطَّاعَۃِ ، فِی الْعُسْرِ والْیُسْرِ ، وَالْمَنْشَطِ وَالْمَکْرَہِ ، وَعَلٰی اَثَرَۃٍ عَلَیْنَا ، وَعَلٰی اَنْ لَا نُـنَازِعَ الْاَمْرَ اَھْلَہٗ ، وَعَلٰی اَنْ نَقُولَ بِالْحَقِّ اَیْنَمَا کُنَّا ، لَا نَخَافُ فِی اللّٰہِ لَوْمَۃَ لَائِمٍ 1 ”ہم نے اللہ کے رسول ﷺ سے بیعت کی کہ ہم سنیں گے اور اطاعت کریں گے ‘ خواہ آسانی ہو یا مشکل ‘ خواہ ہماری طبیعت آمادہ ہو یا ہمیں اس پر جبر کرنا پڑے ‘ اور خواہ دوسروں کو ہمارے اوپر ترجیح دے دی جائے۔ ہم اصحابِ اختیار سے جھگڑیں گے نہیں ‘ لیکن سچ بولیں گے جہاں کہیں بھی ہم ہوں گے ‘ اور اللہ کے معاملے میں کسی ملامت کرنے والے کی ملامت سے بےخوف رہیں گے۔“ غور کیجئے ‘ اس بیعت کا ایک ایک لفظ اور ایک ایک فقرہ کس قدر اہم اور سبق آموز ہے۔ راوی بیان کرتے ہیں کہ ہم نے بیعت کی تھی اللہ کے رسول ﷺ سے کہ ہم آپ ﷺ کا ہر حکم سنیں گے اور مانیں گے۔ خواہ مشکل ہو ‘ خواہ آسانی ہو ‘ خواہ اس کے لیے ہماری طبیعتیں آمادہ ہوں ‘ خواہ ہمیں اپنی طبیعتوں پر جبر کرنا پڑے اور خواہ ہم پر دوسروں کو ترجیح دی جائے…یعنی ہم کبھی شکایت نہیں کریں گے کہ ہم آپ ﷺ کے پرانے ساتھی ہیں جبکہ آپ ﷺ ہمارے اوپر ایک نوواردکو امیر کیوں مقرر کر رہے ہیں ؟ بس یہ آپ ﷺ کا اختیار ہوگا کہ آپ ﷺ جس کو چاہیں امیر مقرر کریں ‘ آپ ﷺ جو فیصلہ چاہیں کریں… اور یہ کہ ہم آپ ﷺ کے مقرر کردہ امیر سے کبھی جھگڑا نہیں کریں گے…اس بارے میں رسول اللہ ﷺ کا فرمان بھی بہت واضح ہے : مَنْ اَطَاعَنِیْ فَقَدْ اَطَاعَ اللّٰہَ ، وَمَنْ عَصَانِیْ فَقَدْ عَصَی اللّٰہَ ، وَمَنْ اَطَاعَ اَمِیْرِیْ فَقَدْ اَطَاعَنِیْ ، وَمَنْ عَصٰی اَمِیْرِیْ فَقَدْ عَصَانِیْ 1 ”جس نے میری اطاعت کی اس نے اللہ کی اطاعت کی اور جس نے میری نافرمانی کی اس نے اللہ کی نافرمانی کی اور جس نے میرے مقرر کردہ امیر کی اطاعت کی اس نے میری اطاعت کی اور جس نے میرے مقرر کردہ امیر کی نافرمانی کی اس نے میری نافرمانی کی۔“ اطاعت امیر کے حوالے سے یہ نکتہ بھی مد نظر رہنا چاہیے کہ جماعتی زندگی میں ”امیر“ صرف ایک نہیں ہوتابل کہ مختلف سطحوں پر اوپر نیچے بہت سے ”اُمراء“ ہوتے ہیں۔ جیسے فوج کا ایک سپہ سالار ہوتا ہے ‘ اس کے نیچے مختلف رجمنٹس ‘ بٹالینز ‘ کمپنیز اور پلاٹونز کے اپنے اپنے کمانڈرز ہوتے ہیں ‘ اسی طرح ایک تنظیم کا ایک مرکزی امیر ہوگا ‘ پھر صوبائی اُمراء ‘ ڈویثرنل امراء ‘ ضلعی امراء ہوں گے اور ان سب امراء کا سلسلہ وار سمع وطاعت کا نظام ہوگا۔ حضور ﷺ کی مذکورہ بیعت کی یہ آخری شق بھی بہت اہم ہے کہ ہم جہاں کہیں بھی ہوں گے حق بات ضرور کہیں گے اور اللہ کے معاملے میں کسی ملامت کرنے والے کی ملامت کا خوف نہیں کریں گے۔ یعنی مشورہ مانگا جائے گا تو بےلاگ مشورہ دیں گے ‘ اپنی رائے کو چھپا کر نہیں رکھیں گے۔ -۔ اس حوالے سے یہ وضاحت بھی ضروری ہے کہ ایک مامور کی ذمہ داری صرف مشورہ دینے کی حد تک ہے۔ اس کے بعد امیر جو فیصلہ بھی کرے اسے دل و جان سے تسلیم کرنا اس پر لازم ہے ‘ جیسا کہ سورة محمد ﷺ کی آیت 21 کے الفاظ { فَاِذَا عَزَمَ الْاَمْرُقف } سے واضح ہوتا ہے کہ جب فیصلہ ہوجائے تو اللہ اور اس کے رسول ﷺ کی اطاعت لازم ہے۔ بہر حال جب منہج ِانقلاب نبوی میں اقدام کا مرحلہ آنے کو تھا ‘ Passive Resistance تبدیل ہورہی تھی Active Resistance میں ‘ تو مسلمانوں میں ایک باقاعدہ جماعت کا نظم وجود میں آیا اور اس نظم کی بنیاد بیعت عقبہ ثانیہ بنی۔ آیت زیر مطالعہ کے الفاظ { مُحَمَّدٌ رَّسُوْلُ اللّٰہِط وَالَّذِیْنَ مَعَہٓٗ } میں اسی جماعت اور اسی نظم کی طرف اشارہ ہے۔ { تَرٰٹہُمْ رُکَّعًا سُجَّدًا یَّـبْتَغُوْنَ فَضْلًا مِّنَ اللّٰہِ وَرِضْوَانًاز } ”تم دیکھو گے انہیں رکوع کرتے ہوئے ‘ سجدہ کرتے ہوئے ‘ وہ ہر آن اللہ کے فضل اور اس کی رضا کے متلاشی رہتے ہیں“ { سِیْمَاہُمْ فِیْ وُجُوْہِہِمْ مِّنْ اَثَرِ السُّجُوْدِ } ”ان کی پہچان ان کے چہروں پر ظاہر ہے سجدوں کے اثرات کی وجہ سے۔“ سجدوں کے نشان سے عام طور پر پیشانی کا گٹہ ّمراد لے لیا جاتا ہے جو بعض نمازیوں کے چہروں پر کثرت سجود کی وجہ سے پڑجاتا ہے۔ لیکن یہاں اس سے اصل مراد ایک نمازی اور متقی مومن کے چہرے کی وہ نورانیت اور خاص کیفیت ہے جو اس کے عمل و کردار کی غمازی کرتی محسوس ہوتی ہے۔ { ذٰلِکَ مَثَلُہُمْ فِی التَّوْرٰٹۃِ } ”یہ ہے ان کی مثال تورات میں۔“ یعنی محمد رسول اللہ ﷺ اور آپ ﷺ کے صحابہ کرام رض کی یہ تمثیل تورات میں بیان ہوئی ہے۔ اگرچہ یہود و نصاریٰ نے تورات اور انجیل میں قطع و برید کر کے حضور ﷺ اور آپ ﷺ کے صحابہ رض کے بارے میں پیشین گوئیوں کو بالکل مسخ کردیا ہے ‘ تاہم آج بھی تورات اور انجیل دونوں میں ایسی چیزیں موجود ہیں جن کا مصداق نبی آخرالزماں ﷺ کے سوا اور کوئی نہیں ہوسکتا۔ مثلاً کتاب استثناء ‘ باب 33 ‘ آیت 2 ملاحظہ ہو : ”خداوند سینا سے آیا اور سعیر سے ان پر طلوع ہوا۔ فاران ہی کے پہاڑ سے وہ جلوہ گر ہوا ‘ دس ہزار قدوسیوں کے ساتھ آیا اور اس کے داہنے ہاتھ میں ایک آتشی شریعت ان کے لیے تھی۔“ { وَمَثَلُہُمْ فِی الْاِنْجِیْلِ کَزَرْعٍ اَخْرَجَ شَطْئَـہٗ فَاٰزَرَہٗ فَاسْتَغْلَظَ فَاسْتَوٰی عَلٰی سُوْقِہٖ } ”اور انجیل میں ان کی مثال یوں ہے کہ جیسے ایک کھیتی ہو جس نے نکالی اپنی کو نپل ‘ پھر اس کو تقویت دی ‘ پھر وہ سخت ہوئی ‘ پھر وہ اپنے تنے پر کھڑی ہوگئی۔“ { یُعْجِبُ الزُّرَّاعَ } ”یہ کا شتکار کو بڑی بھلی لگتی ہے“ یہ ایک کھیتی کی مثال ہے۔ بیج کو جب زمین میں دبایا جاتا ہے تو اس سے ایک چھوٹی سی نرم و نازک کو نپل پھوٹتی ہے ‘ پھر وہ آہستہ آہستہ بڑھتی ہے ‘ پھر اس کا تنا بنتا ہے اور اس کے بعد وہ ایک مضبوط پودے کی صورت میں بغیر کسی سہارے کے کھڑی ہوجاتی ہے۔ اس طرح جب ایک کھیتی کے تمام پودے اپنے جوبن پر ہوں اور فصل خوب لہلہا رہی ہوتی ہے تو اسے دیکھ کر کاشتکار کا دل بھی خوشی سے جھوم اٹھتا ہے۔ { لِیَغِیْظَ بِہِمُ الْکُفَّارَ } ”تاکہ ان سے کافروں کے دل جلائے۔“ اس آخری جملے میں گویا واضح کردیا گیا کہ اس مثال یا تشبیہہ کے پردے میں جس کھیتی کی بات ہو رہی ہے وہ دراصل صحابہ کرام رض کی جماعت ہے اور اس کھیتی کا کاشتکار خود اللہ کا رسول ﷺ ہے۔ چشم تصور سے اس جماعت کے ماضی میں جھانکیں تو ہمیں چند سال پہلے کا وہ نقشہ نظر آئے گا جب سر زمین مکہ میں دعوت کے بیج سے ایک ایک کر کے اس کھیتی کی نرم و نازک کو نپلیں نمودار ہو رہی تھیں۔ اس وقت ان کو نپلوں میں اتنی طاقت نہیں تھی کہ وہ اپنے بل پر کھڑی ہوسکتیں۔ جناب ابو طالب کے انتقال کے وقت مکہ میں بمشکل ڈیڑھ سو مسلمان تھے۔ خود حضور ﷺ کے قبیلے نے آپ ﷺ سے تعلق توڑ لیا تھا اور قبیلے کی حمایت کے بغیر مکہ میں رہنا بھی بظاہر آپ ﷺ کے لیے ممکن نہیں رہا تھا۔ اسی صورت حال کے پیش نظر آپ ﷺ اپنی دعوت اور تحریک کے متبادل مرکز کی تلاش میں طائف تشریف لے گئے تھے۔ لیکن وہاں سے بہت تکلیف دہ حالت میں خالی ہاتھ واپس آنا پڑا تھا۔ طائف سے واپسی تک صورت حال اس حد تک گھمبیر ہوچکی تھی کہ آپ ﷺ کو مکہ میں داخل ہونے کے لیے ایک مشرک مطعم بن عدی کی امان لیناپڑی تھی۔ ایک صورت حال وہ تھی جو ُ کل سرزمین مکہ میں اہل ایمان کو برداشت کرنا پڑی تھی اور ایک منظر یہ تھا جس کا نظارہ آج حدیبیہ کا میدان کر رہا تھا ‘ جہاں چودہ سو یا اٹھارہ سو مجاہدین کی سربکف جمعیت سر کٹانے کے لیے بےتاب و بےقرار تھی۔ ان کا نظم و ضبط ‘ ان کا جذبہ ایثار ‘ بیعت علی الموت کے لیے ان کا جوش و خروش ‘ پھر جنگ کے ٹل جانے اور جانوں کے بچ جانے پر ان کا ملال اور بظاہر دب کر صلح کرنے پر ان کا رنج۔ غرض ان کی ہر ادا نرالی اور ان کا ہر انداز انوکھا تھا۔ یہ تھی وہ کھیتی جو آج حدیبیہ کے میدان میں لہلہاتی ہوئی دشمنوں کے دلوں میں کانٹے کی طرح کھٹک رہی تھی۔ اس کھیتی کے جوبن کی اس نرالی شان کو آج ملائکہ مقربین بھی رشک بھری نظروں سے دیکھتے ہوں گے اور اس کے ”نگہبان“ کے اندازِ نگہبانی کی تحسین کے لیے اللہ تعالیٰ کی تسبیح و تقدیس کے ترانے الاپتے ہوں گے۔ ”لِیَغِیْظَ بِہِمُ الْکُفَّارَ“ کے الفاظ میں ایک اہم نکتہ یہ بھی ہے کہ محمد رسول اللہ ﷺ کی اس کھیتی پر جس کا دل جلتا ہو قرآن حکیم اس کے ایمان کی نفی کر رہا ہے۔ صحابہ رض سے بغض ہو اور دعویٰ ایمان کا ہو تو اس دعویٰ میں کوئی صداقت نہیں۔ { وَعَدَ اللّٰہُ الَّذِیْنَ اٰمَنُوْا وَعَمِلُوا الصّٰلِحٰتِ مِنْہُمْ مَّغْفِرَۃً وَّاَجْرًا عَظِیْمًا } ”اللہ نے وعدہ کیا ہے ان لوگوں سے جو ان میں سے ایمان لائے اور انہوں نے نیک اعمال کیے ‘ مغفرت اور اجر عظیم کا۔“ تفسیر عثمانی میں یہ مضمون بیان ہوا ہے کہ اگرچہ حضور ﷺ کے تمام صحابہ رض ایمان اور عمل صالح کا حق ادا کرچکے تھے ‘ پھر بھی یہاں مِنْہُمْ کی قید لگا کر ان پر واضح کردیا گیا کہ اس کیفیت پر موت تک قائم رہنا بھی ضروری ہے ‘ مبادا کہ بعد میں کسی کے اندر کسی قسم کا کوئی تزلزل پیدا ہوجائے۔ انسان چونکہ طبعاً کمزور واقع ہوا ہے ‘ اس لیے اگر اس کو کامیابی کا یقین دلادیا جائے تو اطمینان کی وجہ سے اس میں تساہل پیدا ہوجاتا ہے ‘ جبکہ ہونا تو یہ چاہیے کہ اللہ کے ہاں بلند مقام حاصل کرلینے کے باوجود بھی انسان آخری دم تک ”بین الخوف و الرجاء“ کی کیفیت میں رہے۔
Top