Bayan-ul-Quran - Al-Hujuraat : 17
یَمُنُّوْنَ عَلَیْكَ اَنْ اَسْلَمُوْا١ؕ قُلْ لَّا تَمُنُّوْا عَلَیَّ اِسْلَامَكُمْ١ۚ بَلِ اللّٰهُ یَمُنُّ عَلَیْكُمْ اَنْ هَدٰىكُمْ لِلْاِیْمَانِ اِنْ كُنْتُمْ صٰدِقِیْنَ
يَمُنُّوْنَ : وہ احسان رکھتے ہیں عَلَيْكَ : آپ پر اَنْ اَسْلَمُوْا ۭ : کہ وہ اسلام لائے قُلْ : فرمادیں لَّا تَمُنُّوْا : نہ احسان رکھو تم عَلَيَّ : مجھ پر اِسْلَامَكُمْ ۚ : اپنے اسلام لانے کا بَلِ اللّٰهُ : بلکہ اللہ يَمُنُّ : احسان رکھتا ہے عَلَيْكُمْ : تم پر اَنْ هَدٰىكُمْ : کہ اس نے ہدایت دی تمہیں لِلْاِيْمَانِ : ایمان کی طرف اِنْ : اگر كُنْتُمْ : تم ہو صٰدِقِيْنَ : سچے
(اے نبی ﷺ !) یہ لوگ آپ پر احسان دھر رہے ہیں کہ وہ اسلام لے آئے ہیں ان سے کہیے کہ مجھ پر اپنے اسلام کا احسان نہ دھرو } بلکہ اللہ تم پر احسان دھرتا ہے کہ اس نے تمہیں ایمان کے راستے پر ڈال دیا ہے اگر تم سچے ہو۔
آیت 17 { یَمُنُّوْنَ عَلَیْکَ اَنْ اَسْلَمُوْا } ”اے نبی ﷺ ! یہ لوگ آپ پر احسان دھر رہے ہیں کہ وہ اسلام لے آئے ہیں !“ { قُلْ لَّا تَمُنُّوْا عَلَیَّ اِسْلَامَکُمْ } ”ان سے کہیے کہ مجھ پر اپنے اسلام کا احسان نہ دھرو۔“ { بَلِ اللّٰہُ یَمُنُّ عَلَیْکُمْ اَنْ ہَدٰٹکُمْ لِلْاِیْمَانِ اِنْ کُنْتُمْ صٰدِقِیْنَ } ”بلکہ اللہ تم پر احسان دھرتا ہے کہ اس نے تمہیں ایمان کے راستے پر ڈال دیا ہے ‘ اگر تم سچے ہو۔“ اللہ تعالیٰ نے تمہیں توفیق دی کہ تم اسلام لے آئے۔ ابھی تم لوگ ایمان کے راستے پر آئے ہو۔ اگر تم اپنے اسلام کے دعوے میں سچے ہو گے ‘ نماز کی پابندی کرو گے ‘ رمضان کے روزے رکھو گے ‘ زکوٰۃ ادا کرو گے اور اعمالِ صالحہ کا اہتمام کرو گے تو ان اعمال کی نورانیت سے تمہارے دلوں کے اندر ایمان بھی پیدا ہوجائے گا۔ اس آیت میں اسلام اور ایمان کا فرق بہت واضح ہوگیا ہے۔ متعلقہ لوگوں کے دعوے کے حوالے سے یہاں دو دفعہ اسلام کا لفظ آیا ہے۔ لیکن بعد میں جب اللہ کی توفیق کے حوالے سے بات ہوئی ہے تو ایمان کا ذکر کیا گیا ہے : { بَلِ اللّٰہُ یَمُنُّ عَلَیْکُمْ اَنْ ہَدٰٹکُمْ لِلْاِیْمَانِ } یعنی یہ تو اللہ کا تم پر احسان ہے کہ اس نے تمہیں اسلام لانے کی توفیق دی اور یوں اس نے تمہیں ایمان کی شاہراہ پر ڈال دیا۔ اگر تم صدق دل سے اسلام لائے ہو تو یہ شاہراہ ضرور تمہیں ایمان کی منزل تک لے جائے گی۔ لیکن اگر تم منافق ہو یا صرف جان بچانے کے لیے اسلام کی پناہ میں آئے ہو تو قانونی طور پر بیشک تمہارا شمار مسلمانوں میں ہوجائے گا لیکن اللہ کے ہاں نہ تمہارا اسلام قبول ہوگا اور نہ ایمان۔ جیسا کہ قبل ازیں بھی ذکر ہوا ہے ‘ اس ضمن میں قانون یہی ہے کہ جو کوئی بھی زبان سے توحید و رسالت کی گواہی دے کر مسلمان ہونے کا دعویٰ کرے گا اسے مسلمان تسلیم کرلیا جائے گا۔ اسی قانون کے تحت غزوہ تبوک تک تمام منافقین کو بھی مسلمان تسلیم کیا جاتا رہا۔ یہاں تک کہ حضور ﷺ نے رئیس المنافقین عبدا للہ بن ابی کی نماز جنازہ بھی پڑھائی۔ البتہ غزوئہ تبوک کے بعد ان کی منافقت کا پردہ چاک کیا گیا اور ان کی بنائی ہوئی مسجد مسجد ضرار بھی گرا دی گئی۔
Top