Bayan-ul-Quran - Al-Maaida : 35
یٰۤاَیُّهَا الَّذِیْنَ اٰمَنُوا اتَّقُوا اللّٰهَ وَ ابْتَغُوْۤا اِلَیْهِ الْوَسِیْلَةَ وَ جَاهِدُوْا فِیْ سَبِیْلِهٖ لَعَلَّكُمْ تُفْلِحُوْنَ
يٰٓاَيُّھَا : اے الَّذِيْنَ اٰمَنُوا : جو لوگ ایمان لائے اتَّقُوا : ڈرو اللّٰهَ : اللہ وَابْتَغُوْٓا : اور تلاش کرو اِلَيْهِ : اس کی طرف الْوَسِيْلَةَ : قرب وَجَاهِدُوْا : اور جہاد کرو فِيْ : میں سَبِيْلِهٖ : اس کا راستہ لَعَلَّكُمْ : تاکہ تم تُفْلِحُوْنَ : فلاح پاؤ
اے اہل ایمان اللہ کا تقویٰ اختیار کرو اور اس کی جناب میں اس کا قرب تلاش کرو اور اس کی راہ میں جہاد کرو تاکہ تم فلاح پاؤ
آیت 35 یٰٓاَیُّہَا الَّذِیْنَ اٰمَنُوا اتَّقُوا اللّٰہَ وَابْتَغُوْٓا اِلَیْہِ الْوَسِیْلَۃَ یہاں لفظ وسیلہ قابل غور ہے اور اس لفظ نے کافی لوگوں کو پریشان بھی کیا ہے۔ لفظ وسیلہ اردو میں تو ذریعہ کے معنی میں آتا ہے ‘ یعنی کسی تک پہنچنے کا کوئی ذریعہ بنا لینا ‘ سفارش کے لیے کسی کو وسیلہ بنا لینا۔ لیکن عربی زبان میں وسیلہ کے معنی ہیں قرب۔ بعض الفاظ ایسے ہیں جن کا عربی میں مفہوم کچھ اور ہے جبکہ اردو میں کچھ اور ہے۔ جیسے لفظ ذلیل ہے ‘ عربی میں اس کے معنی کمزور جبکہ اردو میں کمینے کے ہیں۔ جیسا کہ ہم پڑھ آئے ہیں : وَلَقَدْ نَصَرَکُمُ اللّٰہُ بِبَدْرٍ وَّاَنْتُمْ اَذِلَّۃٌ ج آل عمران : 123 یعنی اے مسلمانو ! یاد کرو اللہ نے تمہاری مدد کی تھی بدر میں جب کہ تم بہت کمزور تھے۔ اب اگر یہاں ذلیل کا ترجمہ اردو والا کردیا جائے تو ہمارے ایمان کے لالے پڑجائیں گے۔ اسی طرح عربی میں جہل کے معنی جذباتی ہونا ہے ‘ اَن پڑھ ہونا نہیں۔ ایک پڑھا لکھا شخص بھی جاہل یعنی جذباتی ‘ اکھڑ مزاج ہوسکتا ہے لیکن اردو میں جاہل عالم کا متضاد ہے ‘ یعنی جو اَن پڑھ ہو۔ اسی طرح کا معاملہ لفظ وسیلہ کا ہے۔ اس کا اصل مفہوم قرب ہے اور یہاں بھی یہی مراد لیا جائے گا۔ یہاں ارشاد ہوا ہے : اے ایمان والو ‘ اللہ کا تقویٰ اختیار کرو اور آگے بڑھ کر اس کا قرب تلاش کرو تقویٰ کے معنی ہیں اللہ کے غضب سے ‘ اللہ کی ناراضگی سے اور اللہ کے احکام توڑنے سے بچنا۔ یہ ایک منفی محرک ہے ‘ جبکہ قرب الٰہی کی طلب ایک مثبت محرک ہے کہ اللہ کے نزدیک سے نزدیک تر ہوتے چلے جاؤ۔ لیکن اس کے قرب کا ذریعہ کیا ہوگا ؟ وَجَاہِدُوْا فِیْ سَبِیْلِہٖ لَعَلَّکُمْ تُفْلِحُوْنَ ۔ اس سے بات بالکل واضح ہوگئی کہ تقرّب الی اللہ کے لیے جہاد کرو۔ تقویٰ شرط لازم ہے۔ یعنی پہلے جو حرام چیزیں ہیں ان سے اپنے آپ کو بچاؤ ‘ جن چیزوں سے روک دیا گیا ہے ان سے رک جاؤ اور اللہ کی نافرمانی سے باز آجاؤ۔ اور پھر اس کا تقرب حاصل کرنا چاہتے ہو تو اس کی راہ میں جدوجہد کرو۔
Top