Bayan-ul-Quran - Al-Hadid : 11
مَنْ ذَا الَّذِیْ یُقْرِضُ اللّٰهَ قَرْضًا حَسَنًا فَیُضٰعِفَهٗ لَهٗ وَ لَهٗۤ اَجْرٌ كَرِیْمٌۚ
مَنْ ذَا الَّذِيْ : کون ہے جو يُقْرِضُ اللّٰهَ : قرض دے گا اللہ کو قَرْضًا حَسَنًا : قرض حسنہ فَيُضٰعِفَهٗ : پھر وہ دوگنا کرے گا اس کو لَهٗ : اس کے لیے وَلَهٗٓ اَجْرٌ : اور اس کے لیے اجر ہے كَرِيْمٌ : عزت والا
کون ہے جو اللہ کو قرض دے قرض حسنہ ؟ کہ وہ اس کے لیے اسے بڑھاتا رہے اور اس کے لیے بڑا باعزت اجر ہے۔
آیت 1 1{ مَنْ ذَا الَّذِیْ یُـقْرِضُ اللّٰہَ قَرْضًا حَسَنًا } ”کون ہے جو اللہ کو قرض دے قرض حسنہ ؟“ { فَیُضٰعِفَہٗ لَہٗ وَلَــہٗٓ اَجْرٌ کَرِیْمٌ۔ } ”کہ وہ اس کے لیے اسے بڑھاتا رہے اور اس کے لیے بڑا باعزت اجر ہے۔“ اللہ تعالیٰ سے بڑھ کر اور بھلا کون اجر دے سکتا ہے ؟ ایسا منافع اور بھلا کہاں سے مل سکتا ہے ؟ چناچہ اے اہل ایمان ! آگے بڑھو ! لبیک کہو اپنے رب کی اس پکار پر ! اور اپنا مال اور اپنا وقت قربان کر دو اس کی رضا کے لیے ! اپنی صلاحیتیں اور اپنی جان کھپا دو اس کی راہ میں ! یہاں پر یہ نکتہ ایک دفعہ پھر سے ذہن نشین کر لیجیے کہ انفاقِ مال اور انفاقِ جان ایک اعتبار سے ایک ہی چیز ہے۔ مال اور جان کے باہمی تعلق کو اس پہلو سے بھی سمجھنا چاہیے کہ ایک شخص اپنی جان ‘ یعنی جسمانی قوت ‘ ذہانت اور دیگر صلاحیتوں کی مدد سے مال کماتا ہے۔ پھر اپنے اس مال سے ایک طرف وہ اپنی جان کی بقا کا سامان پیدا کرتا ہے تو دوسری طرف اسی کی مدد سے وہ دوسروں کی قوت ‘ ذہانت اور دیگر صلاحیتوں کو خریدنے کی استعداد بھی حاصل کرلیتا ہے۔ اسی طرح انسان کی مہلت زندگی یعنی ”وقت“ بھی اس کی دولت ہے جس کے ذریعے سے وہ مال کماتا ہے۔ چناچہ عام طور پر کہا جاتا ہے : time is money کہ وقت اصل دولت ہے۔ گویا انسان کی جان ‘ اس کا مال اور وقت باہم یوں متعلق و مربوط ہیں کہ ان میں سے کسی ایک کے انفاق میں عملی طور پر باقی دو چیزوں کا انفاق بھی شامل ہوتا ہے۔ چناچہ یہاں جس انفاق کی بات ہو رہی ہے اس میں آپ کا مال ‘ آپ کا وقت ‘ آپ کی جسمانی قوت ‘ ذہانت ‘ فطانت ‘ جان وغیرہ سب شامل ہیں۔ اب اگلی آیات میں روز محشر کے اس مرحلے کا نقشہ دکھایا جا رہا ہے جب منافقین کو چھانٹ کر سچے اہل ایمان سے الگ کردیا جائے گا۔ اس مرحلے کو ہمارے ہاں عموماً ”پل صراط“ کا مرحلہ کہا جاتا ہے۔ میدانِ حشر کا یہ نقشہ ذہن میں رکھیے کہ وہاں مختلف مواقع پر مختلف قسم کے لوگوں کی چھانٹی ہوتی چلی جائے گی۔ اس چھانٹی کے عمل کو سمجھنے کے لیے بجری بنانے والے کرشرز crushers میں لگی چھلنیوں کی مثال ذہن میں رکھیے۔ جس طرح ان مشینوں میں لگی مختلف قسم کی چھلنیاں مختلف سائز کے پتھروں کو الگ کرتی چلی جاتی ہیں بالکل اسی طرح میدانِ محشر میں مختلف مراحل پر مختلف قسم کے انسان بھی اپنے اعتقادات و اعمال کی بنیاد پر الگ ہوتے چلے جائیں گے۔ چناچہ سب سے پہلی چھانٹی میں تمام کفار و مشرکین کو الگ کرلیا جائے گا۔ پھر کسی مرحلے پر ایمان کے دعوے داروں میں سے سچے مومنین اور منافقین کو الگ الگ کرنے کے لیے چھانٹی کی جائے گی اور یہی وہ مرحلہ ہے جس کا نقشہ آئندہ آیات میں دکھایا جا رہا ہے۔ اس چھانٹی کے لیے تمام مسلمانوں کو گھپ اندھیرے میں پل صراط پر سے گزرنا ہوگا جس کے نیچے جہنم بھڑک رہی ہوگی۔ جن لوگوں کے دلوں میں سچا ایمان تھا اور انہوں نے ایمان کی حالت میں نیک اعمال بھی کیے تھے ‘ ان کے قلوب اور داہنے ہاتھوں سے اس وقت نور پھوٹ رہا ہوگا اور وہ اس روشنی میں راستہ پار کر کے جنت میں پہنچ جائیں گے۔ لیکن جو لوگ دنیا میں سچے ایمان سے محروم رہے اور اعمالِ صالحہ کی پونجی بھی ان کے پاس نہیں ہوگی ‘ وہ خواہ دنیا میں مسلمانوں ہی کے ساتھ شریک رہے ہوں اور خواہ وہ مسلمانوں کے بڑے بڑے قائدین بن کر رہے ہوں اس وقت وہ روشنی سے محروم کردیے جائیں گے۔ اس حالت میں وہ ٹھوکریں کھاتے جہنم میں گرتے چلے جائیں گے۔ آئندہ آیات میں اس مرحلے کا تفصیلی نقشہ کھینچا گیا ہے۔ اس کے بعد روز محشر کے اس مرحلے کی ایک جھلک سورة التحریم کی آیت 8 میں بھی دکھائی گئی ہے۔
Top