Bayan-ul-Quran - Al-Hadid : 2
لَهٗ مُلْكُ السَّمٰوٰتِ وَ الْاَرْضِ١ۚ یُحْیٖ وَ یُمِیْتُ١ۚ وَ هُوَ عَلٰى كُلِّ شَیْءٍ قَدِیْرٌ
لَهٗ مُلْكُ السَّمٰوٰتِ : اسی کے لیے ہے بادشاہت آسمانوں کی وَالْاَرْضِ ۚ : اور زمین کی يُحْيٖ : وہ زندہ کرتا ہے وَيُمِيْتُ ۚ : اور موت دیتا ہے وَهُوَ عَلٰي كُلِّ شَيْءٍ : اور وہ ہر چیز پر قَدِيْرٌ : قدرت رکھتا ہے
اسی کے لیے ہے آسمانوں اور زمین کی بادشاہی۔ وہی زندہ رکھتا ہے وہی مارتا ہے۔ اور وہ ہرچیز پر قادر ہے۔
آیت 2 { لَـہٗ مُلْکُ السَّمٰوٰتِ وَالْاَرْضِ } ”اسی کے لیے ہے آسمانوں اور زمین کی بادشاہی۔“ آیت کے آغاز میں جو حرفِ جار ”ل“ آیا ہے یہ تملیک کے لیے بھی ہوسکتا ہے اور استحقاق کے لیے بھی۔ یعنی آسمانوں اور زمین کی بادشاہی de facto بھی اسی کی ہے اور de jure بھی۔۔۔ اسی کو حاکمیت کا حق پہنچتا ہے اور بالفعل بھی وہی حاکم ہے۔ اسی کو حق پہنچتا ہے کہ وہ مالک ہو اور بالفعل بھی وہی مالک ہے۔ اس سورة مبارکہ میں دین کا ذکر خصوصی طور پر بطور ایک نظام کے کیا گیا ہے اور یہ نظام صرف حکومت الٰہیہ کے زیر سایہ ہی قائم ہوسکتا ہے۔ یہی وجہ ہے کہ اس سورت میں اللہ کی ایسی صفات بار بار نمایاں کی گئی ہیں جن کا تعلق طاقت ‘ حکومت ‘ قدرت اور اختیار سے ہے۔ { یُحْیٖ وَیُمِیْتُ وَہُوَ عَلٰی کُلِّ شَیْ ئٍ قَدِیْرٌ۔ } ”وہی زندہ رکھتا ہے ‘ وہی مارتا ہے۔ اور وہ ہرچیز پر قادر ہے۔“ اس سورة مبارکہ کی پہلی چھ آیات پورے قرآن حکیم میں اس اعتبار سے منفرد و ممتاز ہیں کہ ان میں اللہ تعالیٰ کے اسماء وصفات کا ذکر فلسفے اور منطق کی سطح پر جامع ترین انداز میں ہوا ہے۔ لیکن ظاہر ہے یہ موقع ایسی تفصیلات میں جانے کا نہیں۔
Top