Bayan-ul-Quran - Al-Hadid : 7
اٰمِنُوْا بِاللّٰهِ وَ رَسُوْلِهٖ وَ اَنْفِقُوْا مِمَّا جَعَلَكُمْ مُّسْتَخْلَفِیْنَ فِیْهِ١ؕ فَالَّذِیْنَ اٰمَنُوْا مِنْكُمْ وَ اَنْفَقُوْا لَهُمْ اَجْرٌ كَبِیْرٌ
اٰمِنُوْا : ایمان لاؤ بِاللّٰهِ : اللہ پر وَرَسُوْلِهٖ : اور اس کے رسول پر وَاَنْفِقُوْا مِمَّا : اور خرچ کرو اس میں سے جو جَعَلَكُمْ : اس نے بنایا تم کو مُّسْتَخْلَفِيْنَ : پیچھے رہ جانے والے۔ خلیفہ۔ جانشین فِيْهِ ۭ : اس میں فَالَّذِيْنَ اٰمَنُوْا : تو وہ لوگ جو ایمان لائے مِنْكُمْ : تم میں سے وَاَنْفَقُوْا : اور انہوں نے خرچ کیا لَهُمْ اَجْرٌ : ان کے لیے اجر ہے كَبِيْرٌ : بڑا
ایمان لائو اللہ پر اور اس کے رسول ﷺ پر اور خرچ کرو ان سب میں سے جن میں اس نے تمہیں خلافت عطا کی ہے۔ پس جو لوگ تم میں سے ایمان لائے اور انہوں نے (اپنے مال و جان کو) خرچ کیا ان کے لیے بہت بڑا اجر ہے۔
آیت 7{ اٰمِنُوْا بِاللّٰہِ وَرَسُوْلِہٖ وَاَنْفِقُوْا مِمَّا جَعَلَکُمْ مُّسْتَخْلَفِیْنَ فِیْہِ } ”ایمان لائو اللہ پر اور اس کے رسول ﷺ پر اور خرچ کرو ان سب میں سے جن میں اس نے تمہیں خلافت عطا کی ہے۔“ خلافت کے حوالے سے انسان کو سب سے زیادہ اختیار تو اپنے جسم پر عطا کیا گیا ہے۔ اس میں اس کے مختلف اعضاء ہیں ‘ طاقت جسمانی ‘ طلاقت لسانی ‘ ذہانت و فطانت اور دوسری بہت سی صلاحیتیں ہیں۔ پھر مال و دولت ‘ اولاد اور دوسری بیشمار نعمتیں ہیں۔ چناچہ اللہ تعالیٰ کو معبود ماننے کا تقاضا یہ ہے کہ انسان اپنی ان خداداد صلاحیتوں اور نعمتوں کو اللہ کی رضا کے لیے اس کے راستے میں خرچ کرنے کے لیے ہر وقت کمر بستہ رہے۔ واضح رہے کہ ”نفق“ کا لفظ مال و دولت خرچ کرنے کے معنی میں بھی آتا ہے اور جان خرچ کردینے کے مفہوم میں بھی استعمال ہوتا ہے۔ چناچہ نَفَقَتِ الدَّرَاھِمکے معنی ہیں رقم ختم ہوگئی اور نَفَقَ الْفَرس کے معنی ہیں گھوڑا مرگیا۔ یہاں یہ آیت پڑھتے ہوئے ضروری ہے کہ سورة الحجرات کی اس آیت کو بھی ذہن میں تازہ کرلیں : { اِنَّمَا الْمُؤْمِنُوْنَ الَّذِیْنَ اٰمَنُوْا بِاللّٰہِ وَرَسُوْلِہٖ ثُمَّ لَمْ یَرْتَابُوْا وَجَاہَدُوْا بِاَمْوَالِہِمْ وَاَنْفُسِہِمْ فِیْ سَبِیْلِ اللّٰہِ اُولٰٓئِکَ ہُمُ الصّٰدِقُوْنَ۔ } ”مومن تو بس وہی ہیں جو ایمان لائے اللہ اور اس کے رسول ﷺ پر ‘ پھر شک میں ہر گز نہیں پڑے اور انہوں نے جہاد کیا اپنے مالوں اور اپنی جانوں کے ساتھ اللہ کی راہ میں۔ یہی لوگ ہیں جو اپنے دعوائے ایمان میں سچے ہیں۔“ ان دونوں آیات میں دو دو مطالبات آئے ہیں ‘ پہلا مطالبہ دونوں میں مشترک ہے یعنی { اٰمِنُوْا بِاللّٰہِ وَرَسُوْلِہٖ } ایمان لائو اللہ اور اس کے رسول ﷺ پر ‘ جیسا کہ ایمان لانے کا حق ہے۔ جبکہ دوسرے مطالبے کے حوالے سے سورة الحجرات کی مذکورہ بالا آیت میں جہاد کا ذکر ہے کہ اپنے جان و مال کے ساتھ جہاد کرو ‘ اور زیر مطالعہ آیت میں ہر اس چیز کے انفاق کا حکم ہے جس پر انسان کو خلیفہ بنایا گیا ہے۔ ظاہر ہے اس میں انفاقِ مال بھی شامل ہے اور بذل نفس یعنی انفاقِ جان بھی۔ { فَالَّذِیْنَ اٰمَنُوْا مِنْکُمْ وَاَنْفَقُوْا لَھُمْ اَجْرٌ کَبِیْرٌ۔ } ”پس جو لوگ تم میں سے ایمان لائے اور انہوں نے اپنے مال و جان کو خرچ کیا ‘ ان کے لیے بہت بڑا اجر ہے۔“ جس خوش نصیب نے مذکورہ دونوں مطالبات پورے کردیے ‘ یعنی اسے یقین والا ایمان بھی نصیب ہوگیا اور اس نے اپنی زیر ملکیت ہرچیز کو اللہ کی رضا کے لیے پیش بھی کردیا تو اس کے گویا وارے نیارے ہوگئے۔ وہ بہت بڑے اجر کا مستحق ٹھہرا۔۔۔۔ - - مضمون کے حوالے سے یہاں آیات کے ربط و نظم کی خوبصورتی اور مندرجات کی ترتیب ملاحظہ کیجیے کہ پہلے ایک آیت میں دو مطالبات کا ذکر کر کے ان کے بارے میں ترغیب دی گئی ہے۔ اب اس کے بعد ان میں سے ہر مطالبے سے متعلق دو دو آیات اس طرح آرہی ہیں کہ پہلی آیت میں زجر یعنی ڈانٹ ڈپٹ کا انداز ہے ‘ جبکہ دوسری میں راہنمائی اور ترغیب دی گئی ہے۔
Top