Bayan-ul-Quran - Al-Hashr : 19
وَ لَا تَكُوْنُوْا كَالَّذِیْنَ نَسُوا اللّٰهَ فَاَنْسٰىهُمْ اَنْفُسَهُمْ١ؕ اُولٰٓئِكَ هُمُ الْفٰسِقُوْنَ
وَلَا تَكُوْنُوْا : اور نہ ہوجاؤ تم كَالَّذِيْنَ : ان لوگوں کی طرح نَسُوا : جنہوں نے بھلادیا اللّٰهَ : اللہ کو فَاَنْسٰىهُمْ اَنْفُسَهُمْ ۭ : تو اللہ نے بھلادیا خود انہیں اُولٰٓئِكَ هُمُ : یہی لوگ وہ الْفٰسِقُوْنَ : نافرمان (جمع)
اور (اے مسلمانو دیکھنا !) تم ان لوگوں کی طرح نہ ہوجانا جنہوں نے اللہ کو بھلا دیا تو اللہ نے انہیں اپنے آپ سے غافل کردیا۔ یہی لوگ ہیں جو فاسق ہیں۔
آیت 19{ وَلَا تَـکُوْنُوْا کَالَّذِیْنَ نَسُوا اللّٰہَ فَاَنْسٰٹہُمْ اَنْفُسَہُمْ } ”اور اے مسلمانو دیکھنا ! تم ان لوگوں کی طرح نہ ہوجانا جنہوں نے اللہ کو بھلا دیا تو اللہ نے انہیں اپنے آپ سے غافل کردیا۔“ { اُولٰٓئِکَ ہُمُ الْفٰسِقُوْنَ۔ } ”یہی لوگ ہیں جو فاسق ہیں۔“ ہمارے لیے اس آیت کی اہمیت کا ایک پہلو یہ بھی ہے کہ علامہ اقبال کے بیان کے مطابق انہوں نے اپنا فلسفہ خودی اسی آیت سے اخذ کیا تھا۔ علامہ کے اس بیان کے راوی سید نذیر نیازی ہیں۔ انہوں نے اپنے ایک مضمون میں اس حوالے سے ایک واقعہ رقم کیا ہے۔ یہ واقعہ انہوں نے ہمارے ہاں قرآن کانفرنس میں اپنے ایک لیکچر میں بھی بیان کیا تھا۔ وہ لکھتے ہیں کہ ایک مرتبہ انہوں نے علامہ اقبال سے ان کے فلسفہ خودی کے ماخذ کے بارے میں سوال کرتے ہوئے کہا کہ آپ کے فلسفہ خودی کے ماخذ کے بارے میں بہت چہ میگوئیاں ہوتی ہیں۔ کوئی دعویٰ کرتا ہے کہ آپ نے یہ فلسفہ نطشے سے لیا ہے ‘ کوئی اس حوالے سے کسی دوسرے مغربی فلاسفر کا نام لیتا ہے۔ بہتر ہوگا آپ خود واضح فرما دیں کہ آپ کے اس فلسفہ کا ماخذ کیا ہے ؟ یہ سن کر علامہ اقبال نے انہیں فرمایا کہ آپ کل فلاں وقت میرے پاس آئیں ‘ میں آپ کو اس کے ماخذ کے بارے میں بتائوں گا۔ اس پر وہ بہت خوش ہوئے کہ شاعر مشرق اور حکیم الامت انہیں یہ اعزاز بخش رہے ہیں کہ انہیں اس موضوع پر تفصیلی ڈکٹیشن دیں گے۔ لیکن اگلے دن جب وہ کاپی پنسل ہاتھ میں لیے مقررہ وقت پر حاضر خدمت ہوئے تو علامہ نے انہیں دیکھتے ہی کہا کہ ذرا قرآن مجید اٹھا لائو۔ پھر انہوں نے کہا کہ سورة الحشر کی یہ آیت آیت 19 نکال کر تلاوت کرو ! اور انہیں مخاطب ہو کر کہا کہ یہ ہے میرے فلسفہ خودی کا ماخذ ! اب آیئے فَاَنْسٰٹہُمْ اَنْفُسَہُمْ کے مفہوم پر غور کریں۔ کیا کوئی شخص اپنے آپ کو اس طرح بھول سکتا ہے کہ وہ خوداپنی شخصیت سے ہی واقف نہ رہے ؟ کیا کوئی انسان ایسا بھی ہوسکتا ہے جسے اپنے پیٹ کا خیال نہ رہے ؟ یا جسے اپنی کوئی بیماری یاد نہ رہے ؟ ظاہر ہے کوئی انسان اپنے جسم اور اس کے تقاضوں سے غافل نہیں ہوسکتا۔ تو معلوم ہوا کہ حیوانی جسم کے علاوہ انسان کی کوئی اور حیثیت بھی ہے جسے وہ بھول جاتا ہے اور وہ ہے انسان کی اصل حقیقت یعنی اس کی ”روح“۔ جہاں تک انسان کے اللہ کو بھلانے کا تعلق ہے اس کا ذکر سورة المجادلہ کی آیت 19 میں بھی آیا ہے : { اِسْتَحْوَذَ عَلَیْھِمُ الشَّیْطٰنُ فَاَنْسٰٹھُمْ ذِکْرَ اللّٰہِط } ”شیطان نے ان پر قابو پا لیا ہے ‘ پس انہیں اللہ کی یاد سے غافل کردیا ہے“۔ اب آیت زیر مطالعہ میں ایسے لوگوں کی اس سزا کا ذکر ہے جو انہیں دنیوی زندگی میں ہی مل جاتی ہے۔ یعنی جو لوگ شیطان کے بہکاوے میں آکر اللہ کو بھول جاتے ہیں اللہ تعالیٰ انہیں ان کی اصل حقیقت سے غافل کردیتا ہے۔ پھر ان لوگوں کو یہ بھی یاد نہیں رہتا کہ وہ انسان ہیں ‘ اشرف المخلوقات ہیں یا اللہ کے بندے ہیں۔ انہیں بس یہی یاد رہ جاتا ہے کہ بہت سے حیوانات کی طرح وہ بھی ایک حیوان ہیں۔ آج ہماری جدید تہذیب بھی مختلف انداز سے ہمیں یہی سبق پڑھانے کی کوشش میں ہے کہ انسان محض ایک حیوان ہے۔ اس فلسفے کو متعارف کرانے اور پروان چڑھانے میں بنیادی کردار ڈارون کے نظریہ ارتقاء Evolution Theory نے ادا کیا ہے۔ اس تھیوری کا خلاصہ یہ ہے کہ ایک حیوان اور انسان میں بنیادی فرق صرف ارتقاء کے مراحل اور مدارج کا ہے۔ جیسے گدھے اور گھوڑے میں صرف یہ فرق ہے کہ گدھا نچلے درجے کا rough coarse جانور ہے ‘ جبکہ گھوڑا ارتقاء کا ایک مزید مرحلہ طے کر کے نسبتاً بہتر درجے میں چلا گیا ہے اور ایک refined اور تمکنت والاجانور ہے ‘ اسی طرح کا فرق ایک گوریلے chimpanzee اور انسان میں ہے۔ یعنی گوریلے کے مقابلے میں انسان نسبتاً بہتر قسم کا جانور ہے ‘ باقی ان دونوں کے جبلی تقاضے instincts اور محرکات motives میں کوئی فرق نہیں ہے۔۔۔۔ - جدید سائیکالوجی بھی انہی خطوط پر چل رہی ہے۔ چناچہ آج کے سائیکالوجسٹ کو بھی محرکاتِ عمل کے حوالے سے انسان اور حیوان میں کوئی فرق نظر نہیں آتا۔ تو جب یہ فرق مٹ گیا اور انسان اپنی اصلیت کو بھلا کر حیوان بن گیا تو گویا وہ ہر قسم کی اخلاقی پابندیوں سے بھی آزاد ہوگیا۔ انیسویں صدی کے فرنچ لٹریچر میں بنیادی طور پر اسی نکتے کو فوکس کیا گیا ہے کہ حیوانات کی زندگی فطرت کے عین مطابق ہے ‘ اس لیے ہم انسانوں کو ان سے سبق لیتے ہوئے اپنی زندگی کو خواہ مخواہ کے تکلفات سے آزاد کرلینا چاہیے۔ مثلاً تمام حیوانات لباس سے بےنیاز ہیں ‘ اس کا مطلب یہ ہے کہ لباس فطرت کا تقاضا نہیں ہے ‘ انسان کی اپنی ایجاد ہے۔ اسی طرح بیوی ‘ بیٹی اور ماں کی تمیز بھی حیوانات میں نہیں پائی جاتی ‘ یہ پابندی بھی انسان نے اپنے اوپر خود ہی عائد کی ہے۔ یہ ہے آج کے انسان کا المیہ ! بہرحال یہ آیت ہمیں اس حقیقت سے آگاہ کرتی ہے کہ جو انسان اللہ کو بھلا دیتا ہے اللہ تعالیٰ اسے اس کی حقیقت سے غافل کردیتا ہے۔ انسان کی روح خود اللہ تعالیٰ نے اس کے اندر پھونکی ہے اور اسی کی وجہ سے وہ ”انسان“ کے مرتبے پر فائز ہوا ہے۔ چناچہ جب کوئی انسان اپنی روح اور اس کے تقاضوں سے غافل ہوجاتا ہے تو وہ انسان کے درجے سے گر کر حیوان بن جاتا ہے۔ اس حوالے سے اپنشد کا یہ جملہ بہت اہم ہے : Man in his ignorance identifies himself with the material sheeths that encompass his real self. اسی real self کا دوسرانام ”انا“ ہے ‘ لیکن اس سے اصل مراد انسان کی ”روح“ ہی ہے ‘ جسے علامہ اقبال نے فلسفیانہ انداز میں ”خودی“ کا نام دیا ہے : ؎ نقطہ نوری کہ نام او خودی ست زیر خاک ما شرار زندگی ست ؎ ہے ذوق تجلی بھی اسی خاک میں پنہاں غافل تو نرا صاحب ِادراک نہیں ہے ! اس ساری بحث کا خلاصہ یہ ہے کہ انسان حیوانی جسم اور روح کا مرکب ہے۔ بقول شیخ سعدی : آدمی زادہ طرفہ معجون است از فرشتہ سرشتہ وز حیوان یعنی آدمی ایک ایسی معجونِ مرکب ہے جس میں فرشتہ اور حیوان دونوں ُ گندھے ہوئے ہیں۔ فرشتے سے مراد یہاں وہ نورانی روح ہے جو عالم امر کی چیز ہے : { وَیَسْئَلُوْنَکَ عَنِ الرُّوْحِط قُلِ الرُّوْحُ مِنْ اَمْرِ رَبِّیْ وَمَآ اُوْتِیْتُمْ مِّنَ الْعِلْمِ اِلاَّ قَلِیْلاً۔ } بنی اسرائیل ”اور اے نبی ﷺ ! یہ لوگ آپ سے پوچھتے ہیں روح کے بارے میں۔ آپ فرما دیجیے کہ روح میرے رب کے امر میں سے ہے اور تمہیں نہیں دیا گیا علم مگر تھوڑا سا“۔ چناچہ انسان کی روح نورانی چیز ہے اور اس کا تعلق اللہ تعالیٰ سے ہے۔ اگر انسان اللہ کو بھلا دے گا تو اپنی روح یعنی اپنی اصلیت سے بیگانہ ہو کر محض ایک حیوان بن کر رہ جائے گا۔ اس کے بعد اس کی نظر میں اچھے برے اور حلال و حرام کی کوئی تمیز نہیں رہے گی۔ انسانی معاشرے کے ایسے ہی افراد آیت زیر مطالعہ کے حکم ”اُولٰٓـئِکَ ھُمُ الْفٰسِقُوْنَ“ کے مصداق ہیں۔
Top