Bayan-ul-Quran - Al-Hashr : 22
هُوَ اللّٰهُ الَّذِیْ لَاۤ اِلٰهَ اِلَّا هُوَ١ۚ عٰلِمُ الْغَیْبِ وَ الشَّهَادَةِ١ۚ هُوَ الرَّحْمٰنُ الرَّحِیْمُ
هُوَ اللّٰهُ : وہ اللہ الَّذِيْ : وہ جس لَآ اِلٰهَ : نہیں کوئی معبود اِلَّا هُوَ ۚ : اس کے سوا عٰلِمُ الْغَيْبِ : جاننے والا پوشیدہ کا وَالشَّهَادَةِ ۚ : اور آشکارا هُوَ الرَّحْمٰنُ : وہ بڑا مہربان الرَّحِيْمُ : رحم کرنے والا
وہی ہے اللہ جس کے سوا کوئی معبود برحق نہیں۔ وہ جاننے والا ہے چھپے کا اور کھلے کا۔
آیت 22{ ہُوَ اللّٰہُ الَّذِیْ لَآ اِلٰـہَ اِلَّا ہُوَ } ”وہی ہے اللہ ‘ جس کے سوا کوئی معبود برحق نہیں۔“ { عٰلِمُ الْغَیْبِ وَالشَّہَادَۃِج } ”وہ جاننے والا ہے چھپے کا اور کھلے کا۔“ یہ پورا مرکب اللہ تعالیٰ کے ایک اسم پر مشتمل ہے۔ اللہ تعالیٰ اسے بھی جانتا ہے جو ہمارے سامنے ہے اور اسے بھی جو ہماری نگاہوں سے پوشیدہ ہے۔ یہاں یہ نکتہ بھی سمجھ لیجیے کہ قرآن میں جہاں اللہ کے لیے غیب اور شہادۃ کے الفاظ آتے ہیں ‘ وہ ہم انسانوں کے لیے ہیں۔ ظاہر ہے اللہ تعالیٰ کے لیے تو سب شہادہ ہی شہادہ ہے ‘ اس کے لیے تو کوئی چیز بھی غیب نہیں۔ ہم انسانوں کے لیے کچھ چیزیں تو وہ ہیں جنہیں ہم اپنے حواس خمسہ سے محسوس کرسکتے ہیں۔ ایسی تمام اشیاء ہمارے لیے ”ظاہر“ الشَّہَادَۃ کے زمرے میں آتی ہیں۔ مثلاً اگر کسی چیز کو ہم مائیکرو سکوپ یا ٹیلی سکوپ سے بھی دیکھ لیں تو اس کی حیثیت بھی ہمارے لیے ”ظاہر“ ہی کی ہے۔ دوسری طرف کچھ ایسے حقائق ہیں جنہیں ہم سے چھپا دیا گیا ہے ‘ انہیں ہم کسی طرح بھی اپنے حواس کے احاطہ میں نہیں لاسکتے۔ ایسی سب چیزیں ہمارے لیے غیب کا درجہ رکھتی ہیں۔ مثلاً اللہ تعالیٰ کی ذات ‘ فرشتے ‘ جنت ‘ دوزخ ‘ عالم ِ آخرت وغیرہ ‘ سب ہمارے لیے غیب ہیں۔ یہ مضمون سورة الجن میں دوبارہ واضح تر انداز میں آئے گا۔ { ہُوَ الرَّحْمٰنُ الرَّحِیْمُ۔ } ”وہ بہت رحم کرنے والا ‘ نہایت مہربان ہے۔“ سورة الفاتحہ کی دوسری آیت ان ہی دو اسمائے حسنیٰ پر مشتمل ہے۔ لغوی اور اشتقاقی تفصیل کے لیے ملاحظہ ہو متعلقہ آیت کی تشریح۔
Top