Bayan-ul-Quran - Al-A'raaf : 116
قَالَ اَلْقُوْا١ۚ فَلَمَّاۤ اَلْقَوْا سَحَرُوْۤا اَعْیُنَ النَّاسِ وَ اسْتَرْهَبُوْهُمْ وَ جَآءُوْ بِسِحْرٍ عَظِیْمٍ
قَالَ : کہا اَلْقُوْا : تم ڈالو فَلَمَّآ : پس جب اَلْقَوْا : انہوں نے ڈالا سَحَرُوْٓا : سحر کردیا اَعْيُنَ : آنکھیں النَّاسِ : لوگ وَاسْتَرْهَبُوْهُمْ : اور انہیں ڈرایا وَجَآءُوْ بِسِحْرٍ : اور وہ لائے عَظِيْمٍ : بڑا
(حضرت موسیٰ ؑ نے) فرمایا : تم ڈالو ! تو جب انہوں نے ڈالا تو لوگوں کی آنکھوں پر جادو کردیا اور انہوں نے ان (حاضرین) پر دہشت طاری کردی اور ظاہر کردیا بہت بڑا جادو
آیت 116 قَالَ اَلْقُوْا ج جادوگروں نے اپنی جادو کی چیزیں زمین پر پھینک دیں۔ اس سلسلے میں قرآن مجید میں کسی جگہ پر رسیوں کا ذکر آیا ہے اور کہیں چھڑیوں کا۔ یعنی اپنی جادو کی وہ چیزیں زمین پر پھینک دیں جو انہوں نے حضرت موسیٰ علیہ السلام کے عصا کا مقابلہ کرنے کے لیے تیار کر رکھیں تھیں۔ فَلَمَّآ اَلْقَوْا سَحَرُوْٓا اَعْیُنَ النَّاسِ انہوں نے جادو کے زور سے حاضرین کی نظر بندی کردی جس کے نتیجے میں لوگوں کو رسیوں اور چھڑیوں کے بجائے زمین پر سانپ اور اژدھے رینگتے ہوئے نظر آنے لگے۔ وَاسْتَرْہَبُوْہُمْ وَجَآءُ وْ بِسِحْرٍ عَظِیْمٍ ۔ واقعتا انہوں نے بھی اپنے فن کا بھر پور مظاہرہ کیا۔ یہاں اس قصے کی کچھ تفصیل چھوڑ دی گئی ہے ‘ مگر قرآن حکیم کے بعض دوسرے مقامات کے مطالعے سے پتا چلتا ہے کہ حضرت موسیٰ علیہ السلام جادوگروں کے اس مظاہرے کے بعد عارضی طور پر ڈر سے گئے تھے کہ جو معجزہ میرے پاس تھا اسی نوعیت کا مظاہرہ انہوں نے کر دکھایا ہے ‘ تو پھر فرق کیا رہ گیا ! تب اللہ نے فرمایا کہ اے موسیٰ ڈرو نہیں ‘ بلکہ تمہارے ہاتھ میں جو عصا ہے اسے زمین پر پھینک دو !
Top