Bayan-ul-Quran - Al-A'raaf : 11
وَ لَقَدْ خَلَقْنٰكُمْ ثُمَّ صَوَّرْنٰكُمْ ثُمَّ قُلْنَا لِلْمَلٰٓئِكَةِ اسْجُدُوْا لِاٰدَمَ١ۖۗ فَسَجَدُوْۤا اِلَّاۤ اِبْلِیْسَ١ؕ لَمْ یَكُنْ مِّنَ السّٰجِدِیْنَ
وَلَقَدْ : اور البتہ خَلَقْنٰكُمْ : ہم نے تمہیں پیدا کیا ثُمَّ : پھر صَوَّرْنٰكُمْ : ہم نے تمہاری شکل و صورت بنائی ثُمَّ قُلْنَا : پھر ہم نے کہا لِلْمَلٰٓئِكَةِ : فرشتوں کو اسْجُدُوْا : سجدہ کرو لِاٰدَمَ : آدم کو فَسَجَدُوْٓا : تو انہوں نے سجدہ کیا اِلَّآ : سوائے اِبْلِيْسَ : ابلیس لَمْ يَكُنْ : وہ نہ تھا مِّنَ : سے السّٰجِدِيْنَ : سجدہ کرنے والے ؁
اور ہم نے تمہیں تخلیق کیا پھر تمہاری تصویر کشی کی پھر ہم نے کہا فرشتوں سے کہ جھک جاؤ آدم کے سامنے تو سجدہ کیا سب نے سوائے ابلیس کے نہ ہوا وہ سجدہ کرنے والوں میں
آیت 11 وَلَقَدْ خَلَقْنٰکُمْ ثُمَّ صَوَّرْنٰکُمْ ثُمَّ قُلْنَا لِلْمَلآءِکَۃِ اسْجُدُوْا لِاٰدَمَ ق نظریۂ ارتقاء Evolution Theory کے حامی اس آیت سے بھی کسی حد تک اپنی نظریاتی غذا حاصل کرنے کی کوشش کرتے ہیں۔ قرآن حکیم میں انسان کی تخلیق کے مختلف مراحل کے بارے میں مختلف نوعیت کی تفصیلات ملتی ہیں۔ ایک طرف تو انسان کو مٹی سے پیدا کرنے کی بات کی گئی ہے۔ مثلاً سورة آل عمران آیت 59 میں بتایا گیا ہے کہ انسانِ اوّل کو مٹی سے بنا کر کُنْ کہا گیا تو وہ ایک زندہ انسان بن گیا فَیَکُوْن۔ یعنی یہ آیت ایک طرح سے انسان کی ایک خاص مخلوق کے طور پر تخلیق کی تائید کرتی ہے۔ جب کہ آیت زیر نظر میں اس ضمن میں تدریجی مراحل کا ذکر ہوا ہے۔ یہاں جمع کے صیغے وَلَقَدْ خَلَقْنٰکُمْ ثُمَّ صَوَّرْنٰکُمْ سے یوں معلوم ہوتا ہے کہ جیسے اس سلسلہ کی کچھ انواع species پہلے پیدا کی گئی تھیں۔ گویا نسل انسانی پہلے پیدا کی گئی ‘ پھر ان کی شکل و صورت کو finishing touches دیے گئے۔ یہاں یہ سوال پیدا ہوتا ہے کہ آدم تو ایک تھا ‘ پھر یہ جمع کے صیغے کیوں استعمال ہو رہے ہیں ؟ اس سوال کے جواب کے لیے سورة آل عمران کی آیت 33 بھی ایک طرح سے ہمیں دعوت غور و فکر دیتی ہے ‘ جس میں فرمایا گیا ہے کہ حضرت آدم علیہ السلام کو بھی اللہ تعالیٰ نے چنا تھا : اِنَّ اللّٰہَ اصْطَفآی اٰدَمَ وَنُوْحًا وَّاٰلَ اِبْرٰہِیْمَ وَاٰلَ عِمْرٰنَ عَلَی الْعٰلَمِیْنَ ۔ گویا یہ آیت بھی کسی حد تک ارتقائی عمل کی طرف اشارہ کرتی ہوئی محسوس ہوتی ہے۔ بہر حال اس قسم کی رض heories کے بارے میں جیسے جیسے جو جو عملی اشارے دستیاب ہوں ان کو اچھی طرح سمجھنے کی کوشش کرنی چاہیے ‘ اور آنے والے وقت کے لیے اپنے options کھلے رکھنے چاہیں۔ ہوسکتا ہے جب وقت کے ساتھ ساتھ کچھ مزید حقائق اللہ تعالیٰ کی حکمت اور مشیت سے انسانی علم میں آئیں تو ان آیات کے مفاہیم زیادہ واضح ہو کر سامنے آجائیں۔
Top