Bayan-ul-Quran - Al-A'raaf : 122
رَبِّ مُوْسٰى وَ هٰرُوْنَ
رَبِّ : رب مُوْسٰي : موسیٰ وَهٰرُوْنَ : اور ہارون
موسیٰ ؑ ٰ اور ہارون ؑ کے رب پر
رَبِّ مُوْسٰي وَهٰرُوْنَ آخر کیا وجہ تھی کہ جادوگر مغلوب ہوئے تو فوراً ایمان لے آئے اور وہ بھی انتہائی پختہ ‘ یقین اور استقامت والا ایمان ! کہاں وہ فرعون سے انعام کی بھیک مانگ رہے تھے اور کہاں اب اسے خاطر میں نہ لاتے ہوئے نتائج سے بےپروا ہو کر ڈنکے کی چوٹ پر اپنے ایمان کا اعلان کردیا۔ جادوگروں کے اس رویے کی منطقی توجیہہ یہ ہے کہ جو شخص کسی فن کا ماہر ہو اسے اس فن کے ممکنات کی انتہا اور اس کے حدود وقیود limitations کا بخوبی علم ہوتا ہے۔ وہ اپنے فن کے مخصوص میدان field of specialization میں کسی چیز کی قدر ‘ اہمیت ‘ معیار وغیرہ کو صحیح پہچان سکتا ہے۔ جادو گر جو اپنے فن کے منجھے ہوئے ماہرین تھے وہ فوراً پہچان گئے تھے کہ ان کے جادو کے مقابلے میں جو کچھ حضرت موسیٰ علیہ السلام نے پیش کیا ہے وہ جادو سے ماوراء کوئی چیز ہے۔ لہٰذا جس حقیقت کا ادراک فرعون اور اس کے امراء نہ کرسکے وہ بجلی کی ایک کوند flash کی مانند آناً فاناً جادوگروں کے دلوں کے تاریک گوشوں کو روشن کرگئی اور ان کو ایسا ایمان نصیب ہوا جس کی جرأتِ اظہار اور استقامت نے فرعون اور اس کے لاؤ لشکر کو پریشان کردیا۔
Top