Bayan-ul-Quran - Al-A'raaf : 153
وَ الَّذِیْنَ عَمِلُوا السَّیِّاٰتِ ثُمَّ تَابُوْا مِنْۢ بَعْدِهَا وَ اٰمَنُوْۤا١٘ اِنَّ رَبَّكَ مِنْۢ بَعْدِهَا لَغَفُوْرٌ رَّحِیْمٌ
وَالَّذِيْنَ : اور جن لوگوں نے عَمِلُوا : عمل کیے السَّيِّاٰتِ : برے ثُمَّ : پھر تَابُوْا : توبہ کی مِنْۢ بَعْدِهَا : اس کے بعد وَاٰمَنُوْٓا : اور ایمان لائے اِنَّ : بیشک رَبَّكَ : تمہارا رب مِنْۢ بَعْدِهَا : اس کے بعد لَغَفُوْرٌ : بخشنے والا رَّحِيْمٌ : مہربان
البتہ جن لوگوں نے (کچھ دیر کے لیے) برے کام کیے پھر توبہ کرلی اس کے بعد اور ایمان لے آئے تو یقیناً اس کے بعد آپ ؑ کا رب بخشنے والا اور رحم فرمانے والا ہے۔
آیت 153 وَالَّذِیْنَ عَمِلُوا السَّیِّاٰتِ ثُمَّ تَابُوْا مِنْم بَعْدِہَا وَاٰمَنُوْٓاز اِنَّ رَبَّکَ مِنْم بَعْدِہَا لَغَفُوْرٌ رَّحِیْمٌ وہ لوگ جن سے اس غلطی کا ارتکاب تو ہوا مگر انہوں نے اس سے توبہ کر کے اپنے ایمان کی تجدید کرلی ‘ ایسے تمام لوگوں کا معاملہ اس اللہ کے سپرد ہے جو بخشنے والا اور انسانوں پر رحم کرنے والا ہے۔ البتہ جو لوگ اس جرم پر اڑے رہے ان پر آخرت سے پہلے دنیا کی زندگی میں بھی اللہ کا غضب مسلط ہوا۔ اس کی تفصیل سورة البقرۃ کی آیت 54 کے تحت گزر چکی ہے کہ حضرت موسیٰ علیہ السلام نے ہر قبیلہ کے مؤمنین مخلصین کو حکم دیا کہ وہ اپنے اپنے قبیلہ کے ان مجرمین کو قتل کردیں جنہوں نے گوسالہ پرستی کا ارتکاب کیا۔ صرف وہ لوگ قتل سے بچے جنہوں نے توبہ کرلی تھی۔ یہ بالکل ایسے ہی ہے جیسے سورة المائدۃ میں آیات محاربہ آیات 33 اور 34 میں ہم نے پڑھا کہ اگر ڈاکو ‘ راہزن وغیرہ ملک میں فساد مچا رہے ہوں ‘ لیکن متعلقہ حکام کے قابو میں آنے سے پہلے وہ توبہ کرلیں تو ایسی صورت میں ان کے ساتھ نرمی کا برتاؤ ہوسکتا ہے بلکہ انہیں معاف بھی کیا جاسکتا ہے ‘ لیکن اگر انہیں اسی بغاوت کی کیفیت میں گرفتار کرلیا جائے تو پھر ان کی سزا بہت سخت ہے۔
Top