Bayan-ul-Quran - Al-A'raaf : 168
وَ قَطَّعْنٰهُمْ فِی الْاَرْضِ اُمَمًا١ۚ مِنْهُمُ الصّٰلِحُوْنَ وَ مِنْهُمْ دُوْنَ ذٰلِكَ١٘ وَ بَلَوْنٰهُمْ بِالْحَسَنٰتِ وَ السَّیِّاٰتِ لَعَلَّهُمْ یَرْجِعُوْنَ
وَقَطَّعْنٰهُمْ : اور پراگندہ کردیا ہم نے انہیں فِي الْاَرْضِ : زمین میں اُمَمًا : گروہ در گروہ مِنْهُمُ : ان سے الصّٰلِحُوْنَ : نیکو کار وَمِنْهُمْ : اور ان سے دُوْنَ : سوا ذٰلِكَ : اس وَبَلَوْنٰهُمْ : اور آزمایا ہم نے انہیں بِالْحَسَنٰتِ : اچھائیوں میں وَالسَّيِّاٰتِ : اور برائیوں میں لَعَلَّهُمْ : تاکہ وہ يَرْجِعُوْنَ : رجوع کریں
اور ہم نے انہیں زمین کے اندر منتشر کردیا فرقوں کی صورت میں ان میں سے کچھ لوگ صالح ہیں اور کچھ وہ بھی ہیں جو دوسری طرح کے ہیں ہم انہیں بھلائی اور برائی سے آزماتے رہے ہیں کہ شاید یہ لوگ لوٹ آئیں
آیت 168 وَقَطَّعْنٰہُمْ فِی الْاَرْضِ اُمَمًا ج۔ بنی اسرائیل کا یہ دور انتشار Diaspora 70 عیسوی میں شروع ہوا ‘ جب رومن جنرل ٹائٹس نے ان کے معبد ثانی 2nd Temple کو شہید کیا جو حضرت عزیر علیہ السلام کے زمانے میں دوبارہ تعمیر ہوا تھا۔ ٹائٹس کے حکم سے یروشلم میں ایک لاکھ تینتیس ہزار یہودیوں کو ایک دن میں قتل کیا گیا اور بچ جانے والوں کو فلسطین سے نکال باہر کیا گیا۔ چناچہ یہاں سے ملک بدر ہونے کے بعد یہ لوگ مصر ‘ ہندوستان ‘ روس اور یورپ کے مختلف علاقوں میں جا بسے۔ پھر جب امریکہ دریافت ہوا تو بہت سے یہودی خاندان وہاں جا کر آباد ہوگئے۔ اس آیت میں ان کے اسی انتشار کی طرف اشارہ ہے کہ پوری دنیا میں انہیں منتشر کردیا گیا اور اس طرح ان کی اجتماعیت ختم ہو کر رہ گئی۔ دوسری طرف وہ جہاں کہیں بھی گئے وہاں ان سے شدید نفرت کی جاتی رہی ‘ جس کے باعث ان پر یورپ میں بہت ظلم ہوئے۔ عیسائیوں کی ان سے نفرت اور شدید دشمنی کا ذکر قرآن میں بھی ہے : فَاَغْرَیْنَا بَیْنَہُمُ الْعَدَاوَۃَ وَالْبَغْضَآءَ اِلٰی یَوْمِ الْقِیٰمَۃِ ط المائدۃ : 14 پس ہم نے ان کے درمیان عداوت اور بغض قیامت تک کے لیے ڈال دیا۔ یہ دشمنی یہودیوں کے ان گستاخانہ عقائد کی وجہ سے تھی جو وہ حضرت مسیح اور حضرت مریم علیہ السلام کے بارے میں رکھتے تھے۔ پھر جنگ عظیم دوم میں ہٹلر کے ہاتھوں تو یہودیوں پر ظلم کی انتہاہو گئی۔ اس کے حکم پر پورے مشرقی یورپ سے یہودیوں کو اکٹھا کر کے concentration camps میں جمع کیا گیا اور ان کے اجتماعی قتل کی باقاعدہ منصوبہ بندی کی گئی ‘ جس کے لیے لاکھوں لاشوں کو ٹھکانے لگانے کے لیے جدید آٹو میٹک پلانٹ نصب کیے گئے۔ چناچہ مردوں ‘ عورتوں اور بچوں کو اجتماعی طور پر ایک بڑے ہال میں جمع کیا جاتا ‘ وہاں ان کے کپڑے اتروائے جاتے اور بال مونڈدیے جاتے بعد میں ان بالوں سے قالین تیار کیے گئے جو نازیوں نے اپنے دفتروں میں بچھائے ‘ اور پھر انہیں وہاں سے بڑے بڑے گیس چیمبر زمین داخل کردیا جاتا۔ وہاں مرنے کے بعد مشینوں کے ذریعے سے لاشوں کا چورا کیا جاتا اور پھر خاص قسم کے کیمیکلز کی مدد سے انسانی گوشت کو ایک سیاہ رنگ کے سیال مادے میں تبدیل کر کے کھیتوں میں بطور کھاد استعمال کیا جاتا۔ یہ سب کچھ بیسویں صدی میں آج کے اس مہذب دور میں ہوا۔ اس طریقے سے ہٹلر کے ہاتھوں ساٹھ لاکھ یہودی قتل ہوئے۔ یہود کے اس قتل عام کو Holocaust کا نام دیا جاتا ہے۔ بعض لوگ کہتے ہیں کہ ساٹھ لاکھ کی تعداد مبالغے پر مبنی ہے ‘ اصل تعداد چالیس لاکھ تھی۔ چالیس لاکھ ہی سہی ‘ اتنی بڑی تعداد میں قتل عام قومی سطح پر کتنا دردناک عذاب ہے ! یہ ان کی تاریخ کے اب تک کے حالات و واقعات میں سے مَنْ یَّسُوْمُہُمْ سُوْٓءَ الْعَذَابِ ط کی ایک جھلک ہے۔ اور اس سلسلے میں قیامت تک مزید کیا کچھ ہونے والا ہے اس کی خبر ابھی پردۂغیب میں ہے۔ بہر حال یہودیوں کا آخری وقت بہت جلد آنے والا ہے ‘ مگر جیسے چراغ کا شعلہ بجھنے سے پہلے بھڑکتا ہے ‘ بالکل اسی انداز سے آج کل ہمیں ان کی حکومت اور طاقت نظر آرہی ہے۔ اور شاید یہ سب کچھ اس لیے بھی ہو رہا ہے کہ عربوں جو حضور اکرم ﷺ کے مخاطب اول اور وارث اوّل ہونے کے باوجود دین سے پیٹھ پھیرنے کے جرم کے مرتکب ہوئے ہیں کو ایک مغضوب علیہم قوم کے ہاتھوں ہزیمت سے دو چار کر کے سزا دینا اور To add insult to injury کے مصداق اس ذلیل قوم کے ہاتھوں عربوں کی تذلیل مقصود ہے۔ اندریں حالات ایسا نظر آتا ہے کہ وہ دن اب زیادہ دور نہیں جب مسجد اقصیٰ شہید کردی جائے گی اور اس کے نتیجے میں مشرق وسطیٰ میں جو طوفان اٹھے گا وہ یہودیوں کا سب کچھ بہا کرلے جائے گا ‘ لیکن ان کے اس سلسلۂ عذاب کی آخری شکل حضرت مسیح علیہ السلام کے ظہور کے بعد سامنے آئے گی۔ جیسے پہلے تمام رسولوں کے منکرین ان کی موجودگی میں ختم کردیے گئے تھے چھ رسولوں اور ان کی قوموں کے واقعات تکرار کے ساتھ قرآن میں آئے ہیں اسی طرح حضرت عیسیٰ علیہ السلام کے منکرین کو بھی ان کی موجود گی میں ختم کیا جائے گا۔ حضرت عیسیٰ علیہ السلام بنی اسرائیل کی طرف اللہ کے رسول تھے : وَرَسُوْلاً اِلٰی بَنِیْٓ اِسْرَآءِیْلَ ......... آل عمران : 49۔ یہودی نہ صرف آپ علیہ السلام کے منکر ہوئے بلکہ بزعم خویش انہوں نے آپ علیہ السلام کو قتل بھی کردیا۔ لہٰذا بحیثیت قوم ان کا اجتماعی استیصال بھی حضرت مسیح علیہ السلام ہی کے ہاتھوں ہوگا۔
Top